Pakistan

6/recent/ticker-posts

یومِ شہدائے پولیس

فوج کے علاوہ پولیس کے افسر اور جوان بھی کئی سالوں سے حالتِ جنگ میں ہیں، ان کے سپاہی سے لے کر آئی جی تک نے دوسروں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔ پولیس کے جونیئر ہی نہیں سینئر افسروں نے بھی برضا ورغبت اپنی سب سے قیمتی متاع زندگی کی قربانی دی ہے تاکہ ملک کے عام شہریوں کی زندگیاں محفوظ رہیں، قوم کے یہ محافظ، یہ انوکھے جذبوں سے سرشار متوالے بلاشبہ قوم کے بہت بڑے محسن ہیں۔ آج وطنِ عزیز کے شہروں میں زندگی کی گہما گہمی اور ریل پیل اور دفتروں، بازاروں اور مارکیٹوں کی رونقیں انھی کے دم سے ہیں۔

آج ملک کے کروڑوں شہری رات کو سکون سے میٹھی نیند سوتے ہیں تو یہ سکون انھی شہیدوں کی قربانیوں کے طفیل ہے۔ آج قوم کے کروڑوں بچّے اسکولوں سے بحفاظت گھروں کو لوٹتے ہیں تو یہ امن بھی شہیدوں کے خون کا صدقہ ہے ۔ ان کی بیمثال قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے، اس کا زیادہ سے زیادہ ذکر بھی ہونا چاہیے۔ غالباً اسی لیے نیشنل پولیس بیورو نے ملک کے تمام صوبوں اور خطّوں میں پولیس کے شہداء کے لیے ایک دن مخصوص کر دیا تا کہ اسے یومِ شہدائے پولیس کے طور پر منایا جائے۔

کسی کام کے لیے ایک دن مخصوص کر دیا جائے تو سال کے باقی ماندہ دنوں میں انسان اُس سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور اسے کسی حد تک فراموش کر دیتا ہے۔ مگر قوم کے محسنوں کو سارا سال یاد رکھنا چاہیے اور ہمارے محسن اور ہیرو ہمارے دلوں سے کبھی محو نہیں ہونے چاہئیں، خاص دن کے بارے میں معلوم کیا تو بتایا گیا کہ چار اگست چونکہ پولیس کے سب سے سینئر شہید آئی جی صفوت غیوّر کا یومِ شہادت ہے اس لیے نیشنل پولیس بیورو نے اس دن کو ہی پورے ملک کے لیے یومِ شہداء قرار دے دیا ہے۔

یہ بھی مناسب فیصلہ ہے مگر سال میں صرف ایک روز شہداء کی قبروں پر پھول چڑھا دینا کافی نہیں ہے، قوم کے یہ عظیم محسن اس سے کہیں زیادہ کے حقدار ہیں۔ صرف عیدوں پر نہیں ہر مہینے ضلع کا کوئی ایس پی یا ڈی ایس پی رینک کا افسر شہداء کے لواحقین سے جاکر ضرور ملا کرے اور ان کی خَیریّت اور مسائل کے بارے میں دریافت کرتا رہے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ قافلۂ شہدأ کائناتوں کے خالق اور مالک کا بہت لاڈلا اور پسندیدہ گروپ ہے، اتنا پسندیدہ کہ اسکے لیے ربّ ِ کائنات نے اپنے بنائے ہوئے اصول اور قانون تک بدل ڈالے، مالک کا واضح اعلان ہے کہ ’’کُلُّ نفس’‘ ذ ائقتُہ الموت‘‘ ہر شخص موت سے ہمکنار ہو گا مگر ایک گروپ کو موت سے بھی استثنأ دے دی گئی ہے۔ فرمایا شہید زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے مگر آپ کو اس کا ادراک نہیں ہے۔

جب زندگی اور موت کے خالق اور فرمانروا نے فرما دیا کہ شہید زندہ ہیں تو کون ہے جو ان کا نام دفتروں کے رجسٹروں اور کتابوں سے کاٹے۔ پھر تو ان کی تنخواہ بھی جاری رہنی چاہیے جب حکومتی سطح پر اس چیز کا احساس دلایا گیا تو بات فوراً تسلیم کر لی گئی اور فیصلہ ہو گیا کہ شہیدوں کی تنخواہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک جاری رہیگی اور انکریمنٹ بھی لگا کرے گی مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ شہداء کے بوڑھے والدین اور ان کی بیوگان کو دفتروں کے چکّر کاٹنے پڑتے ہیں۔
صوبوں کے آئی جی صاحبان پر لازم ہے کہ وہ اس چیز کو یقینی بنائیں کہ شہداء کے پسماندگان کو تمام واجبات ان کے گھروں پر ہی وصول ہوں اور جس ضلعے میں انھیں دفتروں کے چکّر کاٹنے پڑیں اور کلرکوں کی منتّیں کرنی پڑیں وہاں ضلع سربرہ کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ اگر کسی شہید کا والد یا بھائی کبھی پولیس کے ضلع سربراہ کو ملنے آئے تو پولیس کمانڈر انھیں انتظار کرائے بغیر فوری طور پر خوشدلی سے ملیں، انھیں اپنے دفتر میں پوری عزّت دیں، اچھی چائے پلائیں اور ان کا مسئلہ حل کرانے کی پوری کوشش کریں۔

یومِ شہداء پر ہر ضلع ہیڈکوارٹر میں تقریبات منعقد ہونی چاہئیں اور یہ تقریبات پولیس لائنوں کے بجائے ڈسٹرکٹ کونسل ہال یا کسی بڑے آڈیٹوریم میں منعقد ہوں جہاں شہداء کی فیمیلیز کے علاوہ ضلع کے نامور دانشوروں، ماہرینِ تعلیم، صنعت و تجارت اور بارایسوسی ایشنز کے نمائیندوں، علمائے کرام اور نوجوان طلباء و طالبات کو بھی مدعو کیا جائے، ایسی تقریبات میں ٹاؤٹ یا بدنام لوگ ہرگز نظر نہیں آنے چاہئیں شہداء کی یاد میں منعقد کی جانے والی فوج کی تقریبات بڑی جاندار اور پُر اثر ہوتی ہیں، پولیس کو فوج کی تقریبات کی وڈیوز دیکھ کر اپنی تقریبات کا Format ان کے مطابق بنانا چاہیے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آج بھی شہداء کے لیے منعقد کی گئی تقریبات میں باون سال پہلے (سن پینسٹھ کی جنگ کے دوران) شہداء کے لیے لکھّے گئے لافانی نغمے گونجتے ہیں، اسمیں کوئی شک نہیں کہ سن پینسٹھ میں بھارت کے خلاف ہونے والی جنگ میں ملک کے شاعروں نے ایسے بے مثال نغمے تخلیق کیے اور موسیقاروں نے ایسی پاور فل دھنیں تخلیق کیں کہ وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کے رگ و پے میں بجلیاں دوڑادیتی ہیں مگر ہمارے شعر و نغمہ کا میدان بنجر کیوں ہو گیا ہے؟ اس معیار کے نغمے پھر کیوں تخلیق نہیں ہو سکے؟۔

دلوں کے تار ہلا دینے والی اور نوجوانوں کو جذبوں اور ولولوں سے سرشار کر دینے والی دھنیں بنانے والے تخلیق کار کہا ں چلے گئے؟ چونکہ قوم کے محافظوں کے خون سے گلشنِ وطن کی آبیاری کا سلسلہ جاری ہے، اسلیے ان لازوال قربانیوں کی تحسین و توصیف کے لیے نئے نغمے تخلیق ہونے چاہئیں اور نئی دھنیں ترتیب دی جانی چاہئیں، ان تقریبات میں پیش ہونے والا شعر و نغمہ اعلیٰ معیار کا ہونا چاہیے، جو قوم کے بہادر سپوتوں کے عظیم کارناموں اور قربانیوں کے شایانِ شان ہو۔

سوال یہ ہے کہ اسقدر قربانیوں کے باوجود پولیس کو ایک نیک نام اور قابلِ احترام ادارے کی حیثیّت کیوں نہیں حاصل ہو سکی؟ پولیس یونیفارم عزّت کی علامت کیوں نہیں بن سکی؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام اس وردی کو ناگوار نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اسلیے ہے کہ عوام کو پولیس سے کئی شکایات ہیں جن میں سے تین بڑی سنگین نوعیّت کی ہیں۔ پہلی یہ کہ پولیس ایماندار نہیں ہے، رشوت کے بغیر مظلوم کے آنسو پونچھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ دوسرا یہ کہ عام آدمی کے ساتھ پولیس بدتمیزی اور بداخلاقی کے ساتھ پیش آتی ہے، اس کا روّیہ غیر ہمدردانہ ہے اور تیسرا یہ کہ پولیس کے زیادہ ترافسران قانون کی حکمرانی کے بجائے حکمرانوں کا قانون نافذ کرتے ہیں یعنی حکومت ِ وقت کے ذاتی نوکروں کا کردار ادا کرتے ہیں اور حکومتوں کے غیر قانونی احکامات بھی بجا لاتے ہیں۔

پولیس سب کی سانجھی ہونی چاہیے، سب کی ہمدرد، خیرخواہ اور غیر جانبدار لیکن عوام کو شکایت ہے کہ پولیس افسر صرف حکومتی پارٹی کے کام کرتے ہیں اور صرف انھیں ریلیف ملتا ہے۔ جو حکومتی پارٹی میں نہ ہوں انھیں انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں، دوسرے لفظوں میں پولیس اپنے سب سے بڑے Client یعنی عوام کے اعتماد سے محروم ہے۔ عزّت تو اعتماد سے بھی اگلا زینہ ہے۔ مختلف فورمز پر کئی بار کہا بھی ہے اور تحریر بھی کر چکا ہوں کہ پولیس کے دامن میں سب سے قیمتی اثاثہ ، شہداء کا خون ہے۔ شہید گاہے بگاہے اپنے لہوسے پولیس کے دامن پر لگے داغ صاف کرتے ہیں مگر کچھ بدبخت اہلکار رشوت خوری اوربددیانتی سے پولیس کا دامن پھر داغدار کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے شہیدوں کے مقدّس خون کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔

ہر سطح کے پولیس کمانڈروں کو شہداء سے منسوب تقریبات میں یہ عہد بھی کرنا چاہیے کہ “ہم کسی بھی قسم کی کرپشن میں ملوّث ہوکر شہداء کے خون کی توہین نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی کو توہین کرنے دیں گے”۔ آئی جیز دوٹوک الفاظ میں اعلان کریں کہ” کرپٹ اور حرام خور افسران پولیس کی یونیفارم پہننے کے مستحق نہیں ہیں، اُن سے وردی چھین لی جائے گی۔ محافظ کی یونیفارم صرف رزقِ حلال کھانے والوں کے جسم پر سجتی ہے اور وہی اس کے حقدار ہیں”۔

ذوالفقار احمد چیمہ
 

Post a Comment

0 Comments