میجر طفیل محمدکے والد کا نام چودھری موج الدین تھا۔ جو دین پر سختی سے کاربند تھے اور صوفی کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ ان کا خاندان موضع کھرکاں ضلع ہوشیار پور (بھارت) کا رہائشی تھا ۔ کاروبار کی وجہ سے 1913ء میں ہوشیار پور سے ضلع جالندھر کے ایک گاؤں میں منتقل ہو گئے۔ جہاں پر 22 جولائی 1914 ء کو طفیل محمدنے جنم لیا۔ طفیل محمد لکھنے پڑھنے کی عمر کو پہنچے تو انہیں شام چوراسی کے ایک مدرسے میں داخل کرا دیا گیا۔ اسی مدرسے سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کے لئے گورنمنٹ کالج جالندھر میں داخلہ لے لیا۔اس کالج سے انہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ ایک طرف ان دنوں طفیل محمد فوج میں جانے کی کوشش کر رہا تھا دوسری طرف انہی دنوں ان کی شادی خاندان میں ہی نیاز بی بی سے کر دی گئی ۔ 22 جولائی 1932 ء میں وہ سپاہی بھرتی ہو گئے ۔
سپاہی سے ترقی کرتے ہوئے صوبے دار کے عہدے پر پہنچے، 1943 ء میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور 1947ء میں جب وہ میجر کے عہدے تک پہنچ چکے تھے ، وہ اپنے پورے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے اور یہاں فوج میں خدمات انجام دینے لگے۔ مسلح فورسز میں ایک امتیازی کیرئیر کے بعد 1958ء میں کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے مشرقی پاکستان میں تعینات ہوئے۔ جون 1958ء میں میجر طفیل محمد کی تعیناتی ایسٹ پاکستان رائفلز میں ہوئی۔ اگست 1958ء کے اوائل میں انہیں لکشمی پور کے علاقے میں ہندوستانی اسمگلرز کا کاروبار بند کرنے اور چند بھارتی دستوں کا صفایا کرنے کا مشن سونپا گیا جو کہ لکشمی پور میں مورچہ بند تھے ۔ وہ اپنے دستے کے ساتھ وہاں پہنچے اور 7 اگست کو بھارتی چوکی کو گھیرے میں لے لیا۔ اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے ، دشمن سے 15 گز کے فاصلے پر پہنچ گئے۔
جب مورچہ بند دشمنوں نے مشین گن سے فائر شروع کیے تو میجر طفیل اپنے ساتھیوں میں سب سے آگے ہونے کی وجہ سے ان کی گولیوں کا نشانہ بننے والے پہلے سپاہی تھے۔ برستی گولیوں میں، بے تحاشہ بہتے خون کی حالت میں انہوں نے ایک گرینڈ دشمنوں کی طرف پھینکا جو سیدھا دشمن کے گن مین کو لگا ۔ جو گن سمیت فنا ہو گیا ۔ ان کے جسم سے خون کے زیادہ بہنے سے ان کی زندگی کا چراغ بجھنے کو تھا ۔ اس حالت میں بھی وہ اپنے ساتھیوں کی قیادت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ ایک مشین گن تو خاموش ہو گئی لیکن دوسری مشین گن نے اسی وقت فائرنگ شروع کر دی جس کی اندھا دھند فائرنگ سے میجر طفیل کے سیکنڈ ان کمانڈ نشانہ بن گئے ۔ میجر طفیل نے ایک گرینیڈ کے ذریعے اس گن کو بھی تباہ کر دیا۔ اس دوران ان کا خون بہتا رہا ۔ وہ اپنے نوجوانوں کو ہدایات دیتے رہے ۔ اب لڑائی دوبدو لڑی جا رہی تھی ۔
اس دوران میجر طفیل نے دیکھا کہ ایک دشمن دبے پائوں ایک جوان پر حملہ آور ہونے والا تھا۔ بے شک کہ میجر صاحب اس وقت خود شدید زخمی تھے، چل نہیں سکتے تھے، رینگتے ہوئے دشمن اور جوان کے درمیان پہنچ گئے اور اپنی ایک ٹانگ پھیلا دی جیسے ہی دشمن ٹھوکر کھا کر گرا میجر طفیل نے اپنے ہیلمٹ سے اس کے چہرے پر ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ اس لڑائی میں بھارتی اپنے پیچھے 4 لاشیں اور 3 قیدی چھوڑکر فرار ہو گئے ۔ میجر طفیل محمد نے 7 اگست 1958ء کو لکشمی پور میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا اور آپ کی تدفین چک نمبر 253 ای بی وہاڑی میں ہوئی۔ میجر طفیل محمد کو شجاعت اور بہادری کے باعث انہیں پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دئیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ 15 نومبر 1959ء کو اس وقت کے صدر ایوب خان نے کراچی میں ایوان صدر میں منعقد ہونے والے ایک خاص دربار میں میجر طفیل محمد کی صاحبزادی نسیم اختر کو یہ اعزاز عطا کیا۔
''نشانِ حیدر‘‘ سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو ایسے افسروں اور جوانوں کو ملتا ہے جنہوں نے بہادری و شجاعت کے غیر معمولی کارنامے سرانجام دئیے ہوں۔ یہ اعزاز برطانیہ کے سب سے بڑے فوجی اعزاز ''وکٹوریہ کراس‘‘ کے برابر ہے ۔ اس ''اعزاز‘‘ کے حاصل کرنے والوں کے ورثاء کو ماہانہ الاؤنس اور تین مربع اراضی بھی دی جاتی ہے۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کو فراموش نہیں کرتیں پروفیسر حمید کوثر نے نشانِ حیدر پانے والے شہداء پر نظمیں لکھیں۔ اس کے علاوہ ان کا اہم کام یہ ہے کہ میجر طفیل محمدشہید (نشانِ حیدر) کی منظوم سوانح عمری لکھی جو کتابی صورت میں 1967ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا نام ''فاتح لکشمی پور‘‘ رکھا گیا۔ جسے محکمہ تعلیم نے 1969 ء میں پاکستان کے تمام سکولوں، کالجوں اور دیگر لائبریریوں کے لئے منظور کیا۔ میجر طفیل محمد شہید کے بارے میں پروفیسر حمید کوثر کے یہ اشعار ملاحظہ کریں۔
عروج یونہی کسی کو نہیں ملا کرتا لہو میں ڈوب کے روشن ہوا ہے نام طفیل
مرے وطن کو مبارک ہو یہ مقام طفیل نشاندارِ حیدر، وطن کے سپاہی
شہادت کی منزل کے بے لوث راہی یہ ہے ''لکشمی پور‘‘ دیتا گواہی
زمانے میں جب تک اجالا رہے گا ترے نام کا بول بالا رہے گا
0 Comments