انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے اور یہ عقل و شعور، علم و آگہی اور جستجو سے مزین کیا گیا ہے۔ جس کی بنا پر انسان نہ صرف اپنی زندگی میں علم و فن، عزت و دولت، جاہ و منصب اور طاقت و اقتدار کی بلندیوں کو چھوتا ہے بلکہ اپنے بلند اوصاف، نیک اعمال اور عظیم کارناموں کی بدولت ہمیشہ امر بھی ہو جاتا ہے۔ راشد منہاس شہید کا شمار بھی ایسے ہی عظیم انسانوں میں ہوتا ہے جو جہاد حق میں سرخرو ہو کر امر ہوئے۔ راشد منہاس 17 فروری 1951 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جیس اسکول اور کوئین میری اسکول کراچی، سینیٹ میری کیمبرج اسکول راولپنڈی اور پھر سینیٹ پیٹرک کالج کراچی سے حاصل کی۔ ان کے والد مجید منہاس جو سول انجینئر تھے، ان کی خواہش تھی کہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے راشد منہاس بھی اسی شعبے میں قدم جمائیں۔ مگر قدرت نے راشد منہاس کے لیے جو اعلیٰ ترین منزل طے کی تھی اس سفر کا آغاز کسی انجینئرنگ یونیورسٹی سے نہیں بلکہ 1968 میں پی اے ایف اسکول لوئر ٹوپہ سے ہوتے ہوئے 51st GDP Course-1971 تھا۔
بیس اگست 1971 کی سہ پہر راشد منہاس کی تربیتی جیٹ طیارے T-33 میں یہ دوسری تنہا پرواز (Solo Flight) تھی۔ راشد مہناس کا طیارہ ابھی ٹیکسی وے سے رن وے کی طرف جارہا تھا جہاں سے اس نے اڑان بھرنی تھی کہ راستے میں اسے اس کے انسٹرکٹر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان نے رکنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی جہاز میں انسٹرکٹر سیٹ سنبھال لی۔ اسی دوران جہاز ٹیکسی وے سے رن وے سے ہوتا ہوا ٹیک آف ہوا۔ اسی دوران پاکستان ایئربیس مسرور کے ٹریفک کنٹرول روم میں طیارے سے راشد منہاس کا یہ پیغام موصول ہوا کہ اس کا طیارہ ہائی جیک کیا جارہا ہے۔ طیارے کا رخ فلائٹ لیفٹیننٹ نے انڈیا کی طرف موڑ دیا تھا۔ دوران پرواز دونوں میں جہاز اپنے قابو میں رکھنے کی کشمکش بھی ہوئی۔ راشد منہاس کی کوشش اس طیارے کو دشمن سرزمین پر اترنے سے روکنا تھا۔ بھارتی سرحد کا فاصلہ جو تیزی سے کم ہو رہا تھا اب صرف 51 کلومیٹر رہ گیا تھا راشد منہاس نے چند ہی لمحات میں فیصلہ کرنا تھا کہ اسے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کے ناپاک ارادے کو ناکام بناتے ہوئے طیارے کا رخ زمین کی طرف موڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا ہے یا طیارہ دشمن ملک کی سرزمین پر اتارنے کا موقع دینا ہے۔ راشد منہاس نے جہاز کا رخ زمین کی طرف کر دیا اور دشمن کو سندھ کے شہر ٹھٹہ کی خاک چاٹنے پر مجبور کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
شاعر مشہیر کاظمی نے اپنے کبھی نہ مٹنے والے کلام میں شہدا کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیئے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
تجزیہ کار یاور اے مظہر نے ایک بار اپنی اور گروپ کیپٹن سیسل چوہدری کی نشست کا ذکر کیا، جس میں زیر بحث راشد منہاس کی شہادت کا واقعہ تھا۔ سیسل چوہدری کے مطابق انہیں فوری طور پر حادثہ کی جگہ تحقیقات کے لیے بھیجا گیا اور جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں جہاز تباہ ہوا تھا تو واضح طور پر لگ رہا تھا کہ جہاز کے کاک پٹ کا نوک والا اگلا حصہ پہلے زمین سے ٹکرایا تھا۔ جس سے فوری طور پر راشد منہاس کی شہادت واقع ہو گئی تھی۔ اور ان کا جسد خاکی سیٹ بیلٹ کی وجہ سے سیٹ پر موجود تھا۔ تاہم مطیع الرحمان کا کٹا پھٹا جسم کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں موجود تھا۔ جہاز کی کینوپی کافی فاصلے پر موجود تھی۔ شواہد یوں ظاہر کر رہے تھے کہ جب دونوں میں جہاز کا کنٹرول اپنے قابو میں کرنے پر ہاتھا پائی ہو رہی تھی اور طیارے کا رخ زمین کی طرف کیا جا چکا تھا اس سے پہلے راشد منہاس نے کینوپی اتار پھینکی تھی تاکہ مطیع الرحمان کو طیارے سے گرایا جاسکے۔
فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کو اپنے مشن کی کامیابی کا یقین تھا کہ جہاں اس نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی وہاں اسے یہ ڈر بھی نہیں تھا کہ آگے سے اسے اس قدر مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے وہم و گماں میں بھی یہ نہ تھا کہ اس قوم کے سپوت تو جان کی بازی لگانے میں سیکنڈ بھی ضائع نہیں کرتے۔ راشد منہاس پاکستان ایئرفورس کے پہلے کم عمر اور کم مدتی سروس رکھنے والے شہید ہیں، جنھیں اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر دیا گیا۔ اس شہید کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جہاں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا، وہاں کراچی کی ایک مرکزی شاہراہ کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان دنیا کے اہم ترین خطہ میں واقع ہے اور اس کے دشمنوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ دشمن چاہے سرحد کے اندر ہے یا سرحد کے اس پار، ہمارے دفاعی اداروں نے اپنی جانوں کے نذرانے سے ان کے ہر وار کا مقابلہ کیا ہے۔ آج سے 49 برس قبل آج ہی کے دن راشد منہاس نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ ہمیں آج کے دن صرف خراج تحسین پیش نہیں کرنا بلکہ اگلی نسل تک بھی یہ پیغام پہنچانا ہے کہ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔
0 Comments