Pakistan

6/recent/ticker-posts

ایف 16 پاکستان سمیت دنیا بھر کی فضائی افواج میں آج بھی اتنا مقبول کیوں ہے؟

F-16 لڑاکا طیارے نے اپنی پہلی پرواز سنہ 1974 میں بھری تھی، اور آج 50 سال گزرنے کے باوجود یہ لڑاکا طیارہ مختلف ممالک کی افواج کے لیے اُتنا ہی اہم ہے جتنا کہ 50 سال پہلے تھا۔ اور اگر پچاس برس پہلے اس لڑاکا طیارے کی آزمائشی پرواز کے دوران اگر پائلٹ حاضر دماغی کا مظاہرہ نہ کرتا تو ایف 16 پروگرام شاید کبھی آگے نہ بڑھ پاتا۔ جب پائلٹ فل اوسٹریکر 20 جنوری 1974 کو کیلیفورنیا میں ایڈورڈز ایئر فورس بیس میں جنرل ڈائنامکس ’وائی ایف -16‘ پروٹو ٹائپ کے کاک پٹ میں بیٹھے تو اُن کا مشن نسبتاً سادہ تھا، یعنی ایک تیز رفتار ٹیکسی ٹیسٹ جس کے تحت طیارے کو اپنے انجن کی طاقت کے تحت زمین پر آگے بڑھنا تھا وائی ایف 16 کو صرف ایک ماہ قبل ہی عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس کی پہلی پرواز فروری 1974 کے اوائل تک نہیں ہوئی تھی۔ لیکن مستقبل کے اس معروف لڑاکا طیارے کو لے کر کچھ اور ہی عزائم تھے۔ جیسے ہی پائلٹ اوسٹریکر نے طیارے کی ناک کو زمین سے تھوڑا سا اوپر اٹھایا، تو وائی ایف-16 نے اتنی تیزی سے دوڑنا شروع کر دیا کہ طیارے کا لیفٹ ونگ اور دائیں ٹیل ٹارمیک سے ٹکرا گئے۔ ’سیئٹل پوسٹ انٹیلیجنس‘ نے اس پرواز کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ جیسے جیسے پائلٹ اوسٹریکر کو طیارے پر کنٹرول رکھنا مشکل ہو رہا تھا اور طیارہ بائیں جانب سلپ ہونے گا تو پائلٹ کو احساس ہوا کہ انھیں اس آزمائشی ٹیسٹ کے طے شدہ حدود و قیود سے باہر نکلنا پڑے گا اور طیارے کے گرنے سے پہلے اسے اڑانا ہو گا۔

کچھ دل دہلا دینے والے لمحات کے بعد پائلٹ اوسٹریکر نے اتنی رفتار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ پروٹو ٹائپ ہوا میں جا سکے اور اڈے پر واپس اترنے سے پہلے ڈرامائی طور پر چھ منٹ طویل پرواز مکمل کر سکے۔ اپنی مہارت کی وجہ سے پائلٹ اوسٹریکر نے ایک ایسے طیارے کو زندہ کرنے میں مدد کی تھی جو انسانی یادداشت میں سب سے کامیاب طیاروں میں سے ایک بن گیا ہے۔ گذشتہ 50 برسوں کے دوران 4600 سے زائد ایف 16 طیارے فیکٹری سے تیار ہو کر محو پرواز ہو چکے ہیں اس لڑاکا طیارے کی پیدوار فی الحال رکنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اگر پائلٹ اوسٹریک اپنے پہلے ٹیکسی ٹیسٹ میں وائی ایف -16 کو گرنے سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو دنیا کی بہت سی فضائی افواج میں شاید ایف -16 کی شکل میں کسی لڑاکا طیارے کی بڑی کمی ہوتی۔ اس طیارے کے ڈیزائن نے سول ایوی ایشن پر دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں، مثال کے طور پر مسافر ایئر لائنز میں بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال اب عام ہو چکا ہے جسے سب سے پہلے ایف سولہ طیارے میں استعمال کیا گیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی نہ کوئی ایف 16 طیارہ دن کے کسی بھی وقت، دنیا کے کسی حصے میں محوِ پرواز ہو۔

سنہ 1978 میں امریکی فضائیہ میں شامل ہونے کے بعد ایف -16 کو ناروے سے چلی اور مراکش سے سنگاپور تک دنیا کی 25 دیگر فضائی افواج نے اڑایا ہے۔ ایک چھوٹے، ہلکے اور انتہائی تیز رفتار ڈاگ فائٹر کے طور پر ڈیزائن کیے گئے ایف-16 نے زمینی حملے سے لے کر اینٹی شپنگ اور فوٹو جاسوسی سے لے کر زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل لانچرز کو تباہ کرنے کے کردار نبھائے ہیں۔ سنہ 2015 کے بعد سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ فوجی فکسڈ ونگ طیارہ رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دو ہزار سے زیادہ ایف 16 طیارے آج بھی عالمی سطح پر فعال ہیں۔ روس کے حملے کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے جو فوجی امداد مانگی تھی اس میں جدید ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایف 16 طیارے دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ یوکرین کے پائلٹ اس وقت ڈنمارک میں ایف 16 طیاروں کی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور موسم گرما میں یوکرین کو ان طیاروں کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ رواں برس جنوری کے اوائل میں سلوواکیہ ایف-16 طیارے حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوا ہے۔

پانچ دہائیوں تک کسی فرنٹ لائن لڑاکا طیارے کو سروس میں رکھنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں فضائی افواج کو اب بھی ایف 16 طیارے کیوں چاہییں؟ شاید اس کی وجہ اس کے ڈیزائن سے متعلق کچھ حقیقی اختراعی پہلو اور ویتنام جنگ میں فضائی لڑائی سے سیکھے گئے کچھ سخت سبق ہیں۔ 1960 کی دہائی کے دوران امریکہ نے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کی نئی ٹیکنالوجی کو دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے بہترین ہتھیار کے طور پر اپنایا تھا۔ جب 1965 میں ویتنام کی جنگ شروع ہوئی تو اس کے کچھ فرنٹ لائن لڑاکا طیارے جیسے ایف -4 فینٹم 2، کے پاس گنیں نہیں تھیں۔ امریکی فوجی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ طیارے کے میزائل کافی ہوں گے۔ تاہم، میزائلوں سے لیس امریکی لڑاکا طیارے ویتنام میں جنگ بڑھنے کے ساتھ ہی چھوٹے اور چاق و چوبند اور سوویت ساختہ مگ لڑاکا طیاروں کا مقابلہ کرنے لگے۔ شمالی ویتنام کے کچھ مگ طیارے تقریباً سوویت طیاروں سے ملتے جلتے تھے جو 1950 کی دہائی کے اوائل میں جزیرہ نما کوریا پر لڑے تھے، اور اب مغرب میں انھیں تقریباً متروک سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، قریبی یا دوبدو لڑائی میں، جہاں امریکی لڑاکا اپنے میزائلوں کو استعمال میں نہیں لا سکتے تھے، وہ زبردست حریف ثابت ہوتے تھے۔

سنہ 1965 اور 1968 کے درمیان، امریکی جنگی طیاروں نے شمالی ویتنام کے طیاروں کو کہیں زیادہ مار گرایا، لیکن یہ فرق ڈرامائی طور پر کم ہو گیا۔ چھوٹے اور سنگل انجن والے مگ طیاروں کے مقابلے میں بڑے اور دو انجن والے امریکی لڑاکا طیاروں کو دور سے تلاش کرنا آسان تھا۔ اس کا ایک حل یہ تھا کہ امریکی بحریہ کے ’ٹاپ گن‘ جیسے تربیتی سکول قائم کیے جائیں، جس نے امریکی ہوابازوں کو ڈاگ فائٹ کا کھویا ہوا فن سکھایا۔ یہ ویتنام جنگ کے اختتام سے پہلے عمل میں آیا۔ ڈاگ فائٹ پہلی عالمی جنگ میں شروع ہوئی تھی جب چھوٹے ہوائی جہازوں کی رفتار ایک کار جیسی تھی لیکن اب کئی سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جیٹ طیاروں میں اسی طرح کی لڑائی ایک بالکل مختلف تجربہ ہے۔ تیز رفتاری کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ دیر تک سخت موڑ میں کشش ثقل کی قوتوں یا جی فورس کے تابع ہیں۔ لیکن امریکہ میں سوویت طیاروں کا مقابلہ کے لیے ایک اور پروگرام ترتیب دیا گیا۔ 1960 کی دہائی کے آخر میں سوویت مگ 25 کے ابھرنے سے امریکی دفاعی سربراہان پہلے ہی پریشان تھے، جو ایک بڑا لڑاکا طیارہ تھا جو آواز کی رفتار سے تین گنا زیادہ رفتار سے پرواز کر سکتا تھا۔

پینٹاگون کی جانب سے مگ-25 کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طاقتور انٹرسیپٹر کے مطالبے کے نتیجے میں میکڈونیل ڈگلس ایف-15 ایگل تیار کیا گیا، جو ایک بڑا اور تیز رفتار انٹرسیپٹر ہے جو ریڈار گائیڈڈ میزائلوں سے انتہائی اونچائی پر دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ویتنام جنگ سے امریکہ نے جو سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ اسے ایک ایسے چھوٹے چاق و چوبند طیارے کی ضرورت ہے جو دشمن کے طیاروں کو ہیٹ سیکنگ میزائلوں اور بندوقوں سے مار گرا سکے آنے والے دنوں میں امریکی ایئرفورس کو ایسے سینکڑوں جنگی طیاروں کی ضرورت ہونی تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ نیٹو ممالک اور دوسری امریکی اتحادی بھی اس کی پیروی کریں گے۔ اس منافع بخش منصوبے کے لیے پانچ ڈیزائن دوڑ میں شامل ہو گئے، جن میں سے دو جلد ہی سب سے آگے نکل گئے جن میں جنرل ڈائنامکس (اب لاک ہیڈ مارٹن کا حصہ) سے وائی ایف -16 اور حریف نارتھروپ سے وائی ایف -17۔ وائی ایف -16 کو سب سے پہلے ڈاگ فائٹ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جس کے تحت اس کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں اور کاک پٹ کو ایسے بنایا گیا جو پائلٹ کو بہتر نظارہ مہیا کرتا ہے۔ اس کا کاک پٹ بالکل ابتدائی جیٹ لڑاکا طیاروں جییسا ڈیزائن کیا گیا تھا۔

برطانیہ میں رائل ایروناٹیکل سوسائٹی میں ملٹری ایوی ایشن کے ماہر ٹم رابنسن کا کہنا ہے کہ ’کم از کم ’فائٹر مافیا‘ کا ایک حصہ جو اسے آگے بڑھا رہا تھا وہ کوریا اور ایف-86 سیبر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ کسی ایسی چیز کو دیکھ رہے تھے جو واقعی قابل عمل تھی اور ببل چھتری کے ساتھ پائلٹ کے لیے واقعی بہت اچھا نظارہ رکھتی تھی۔ رابنسن کا کہنا ہے کہ ایک یہ خیال پیش کیا گیا کہ ریڈار کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد انفراریڈ کی تلاش کرنے والے دو میزائل اور ایک گن رکھنا ہے اور انھیں ان چیزوں کو ختم کرنا پڑے گا۔ وہ سوویت طیاروں کی تعداد کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے: ’خدا، ہمیں ان میں سے بہت سے کی ضرورت ہو گی، ہمیں ان میں سے بہت سے بنانے ہوں گے۔‘ نئے جیٹ کو ایف -15 کی طویل رینج کی ضرورت نہیں تھی چنانچہ یہ بہت چھوٹا اور ہلکا ہو سکتا تھا اور ایف -15 کے دو انجنوں کے برعکس اسے ایک انجن کی ضرورت ہو گی۔ کم وزن اور طاقتور انجن کا یہ امتزاج ایک اعلی ’تھرسٹ ٹو ویٹ تناسب‘ پیدا کرتا ہے، جس نے نہ صرف تیز رفتار کو قابل بنایا بلکہ تیزی سے موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جو ڈاگ فائٹ کے لیے انتہائی موزوں ہے۔

ایف -16 کو ڈاگ فائٹ میں 9 جی تک برداشت کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا (جس کا مطلب ہے کہ زمین پر 1 کلو گرام وزن اچانک 9 کلو گرام ہو گا)۔ ہائی جی پر پرواز کرنے سے ایئر فریم اور پائلٹ دونوں پر بہت زیادہ دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ ہائی جی موڑ میں پائلٹ کو ہوش میں رکھنے میں مدد کے لیے، ایف 16 میں کاک پٹ سیٹ کو دوبارہ موڑ دیا جاتا ہے جس سے پائلٹ پر کچھ اثرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جیف بولٹن ایوی ایشن جرنلسٹ اور براڈکاسٹر ہیں جنھوں نے دو بار ایف 16 کے دو نشستوں والے ورژن میں پرواز کی ہے، جو پائلٹ کی تربیت اور خصوصی مشن دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے جن لڑاکا طیاروں میں پرواز کی ہے ان میں ایف 16 ایسا طیارہ ہے جو ایک دستانے کی طرح آپ کے گرد لپٹ جاتا ہے۔‘ ’میں قد تقریباً 6 فٹ 4 انچ ہے، لہذا یہ میرے لیے ایک تنگ جگہ ہے، لیکن میں پھر بھی اپنی نشست کو نیچے کر سکتا تھا اور میں اپنا ہاتھ اپنے ہیلمٹ اور چھتری کے درمیان رکھ سکتا تھا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ نے طیارے کو ’پہن‘ رکھا ہے۔‘

آنے والے دنوں میں ایف 16 کا کاک پٹ کا ڈیزائن صرف ایک لیٹی ہوئی نشست اور ایک اچھے نظارے سے کہیں آگے گیا۔ طیارے کے ڈیزائنرز نے پہلی عالمی جنگ کے بعد سے لڑاکا طیاروں کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک کو ختم کر دیا، یعنی پائلٹ کی ٹانگوں کے درمیان ایک کنٹرول سٹک کی بجائے ایف -16 میں کاک پٹ کے دائیں طرف جوائے سٹک طرز کا کنٹرولر تھا، بالکل اسی طرح جیسے آپ کمپیوٹر گیم ’فلائٹ سمولیٹر‘ میں استعمال کرتے ہیں۔ ایف 16 کو اصل میں کم اونچائی پر ایف 15 کی مدد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن جلد ہی یہ پتہ چلا کہ ایف 16 کے ایئر فریم نے اسے بھاری بوجھ، زیادہ ایندھن اور ایک بڑا ریڈار لے جانے کی اجازت دی۔ اکیسویں صدی میں ایف 16 طیارے زمینی حملے کے طیارے کے طور پر اہم ہو گئے ہیں جس کے بارے اس کے ڈیزائن کرنے والوں نے 1970 کی دہائی میں سوچا نہیں تھا۔ ایف سولہ کے ڈیزائن نے اسے زیادہ سے زیادہ کردار نبھانے کے قابل بنایا ہے جس نے اسے فضائی افواج کے لیے انتہائی پرکشش بنا دیا رابنسن کا کہنا ہے کہ ’جہاں کوئی تنازع ہے، وہاں شاید ایف 16 طیارے بھی ہوں گے۔‘

رابنسن کا کہنا ہے کہ ایف 16 کا پہلا عرفی نام ’فائٹنگ فالکن‘ تھا، لیکن یہ نام اس پر کبھی جما نہیں ہے۔ ’اب اسے (عرفی نام) کوئی بھی استعمال نہیں کرتا ہے۔ زمین پر کھڑے ایف 16 طیارے بہت ہی ’فیوچرسٹک‘ (یعنی مستقبل کی شے) لگتے ہیں لیکن فضا میں اس حقیقت کا آپ پر انکشاف بھی ہوتا ہے۔ رابنسن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسا طیارہ ہے جو پائلٹوں کو ان کی جسمانی حدود سے باہر دھکیل سکتا تھا نہ صرف اس لیے کہ یہ 9 جی تھا بلکہ یہ بھی کہ یہ کتنی تیزی سے آئے گا۔‘ بولٹن کا کہنا ہے کہ ’جب میں پہلی بار ایف سولہ میں سوار ہوا تو انسٹرکٹر نے مجھ سے کہا کہ ’ٹھیک ہے، اب یہ طیارہ آپ کا ہوا۔‘ پائلٹ نے بولٹن کو مشورہ دیا کہ ’یہ بہت حساس ہے۔ تو بس اس بات کو ذہن میں رکھو کہ ایف 16 کی کنٹرول سٹک پر زیادہ طاقت نہ لگائی جائے۔‘ بولٹن کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کا آغاز ایلرون رول سے کیا تھا، جہاں طیارہ اونچائی کھوئے بغیر 360 ڈگری تک گھوم جاتا ہے۔ ’تو میں نے جب اسے انجام دیا، تو انسٹرکٹر نے میری طرف دیکھا اور کہا ’یار، یہ بہت اچھا تھا۔‘ انسٹرکٹر نے کہا کہ نئے پائلٹ پہلے ایف 16 کے کنٹرولر پر بہت زیادہ طاقت لگاتے تھے۔ بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ طیارہ اس قدر ریسوپانسو ہے کہ ’یہ انسٹرکٹرز کا سر کنوپی کے اطراف سے ٹکراتا ہے۔‘

بولٹن اس سے قبل ایف 5 جیسے امریکی طیاروں میں پرواز کر چکے ہیں، جو ایک طویل عرصے تک ٹاپ گن مشقوں میں سوویت جیٹ طیاروں کا کردار ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ واٹرز اپنے ایف 16 فلائنگ کیریئر کے اختتام پر ایئر شوز میں نمائشی اور ایروبیٹگ پروازیں کرتے رہے ہیں۔ انھیں آج بھی یاد ہے کہ انھوں نے پہلی بار ایف 16 کے کاک پٹ میں کب قدم رکھا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ جولائی میں فینکس میں تھا اور درجہ حرات 48 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ ’بہت زیادہ گرمی، جیٹ کا شور اور پھر آپ ایک ایسے طیارے میں چھلانگ لگا رہے ہیں جسے آپ نے چند بار کنٹرولڈ اور آرام دہ ماحول میں سمولیٹر میں چلایا ہے۔‘ واٹرز کا کہنا ہے کہ تقریباً 5,000 فٹ کی بلندی پر انھوں نے اپنا ماسک گرایا اور وہ پہلی بار ایف 16 اڑانے کی گرمی اور جوش و خروش کے باعث پسینے سے بھیگ گئے تھے۔ ’میں نے اس لمحے سے لطف اندوز ہونے کے لیے صرف ایک منٹ لیا۔یہ ایک بہت ہی ناقابل یقین سنسنی تھی۔ اور اس وقت تک کی سب سے طاقتور چیز جو میں نے اڑائی تھی۔‘

واٹرز کا کہنا ہے کہ ایف-16 کو اڑانے کا واحد مشکل حصہ اسے اتارنا یا لینڈنگ کروانا ہے۔ ’اسے اچھی طرح سے اتارنا کچھ آسان نہیں ہے کیونکہ یہ طیارہ ہمیشہ محو پرواز رہنا چاہتا ہے! آپ دیکھتے ہیں کہ ایف 16 وہ کام کرتے ہیں جسے ہم 'ببل' یا 'باؤنس' کہتے ہیں۔ آپ روایتی طور پر اسے روک نہیں سکتے، فلائی بائی وائر نہیں چاہتا کہ آپ ایسا کریں، وہ اسے اڑتا رہنا چاہتا ہے۔‘ واٹرز نے 2019 میں ایف 16 کو اڑانا چھوڑ دیا تھا۔ ’میں اب بھی اسے یاد کرتا ہوں۔ ایف 16 پر سٹریپنگ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ ٹیلی فون کے کھمبے کے آخری حصے پر بیٹھے ہیں اور آپ کی پیٹھ پر راکٹ موٹر لگی ہوئی ہے۔‘ تاہم اب ایف 16 کی جگہ امریکہ اور نیٹو کی کچھ فضائی افواج میں لاک ہیڈ ساختہ لڑاکا طیارے ایف 35 کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ہر ایف 35 کی قیمت 100 ملین ڈالر سے زیادہ ہے اور اسے دشمن کے طیاروں کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایڈ-آن کے بغیر ایف-16 کی قیمت ایف 35 کی قیمت کا صرف ایک تہائی ہو سکتی ہے۔ وہ 2056 میں ہو گا جب ایف 35 کی پہلی پرواز کے 50 سال مکمل ہوں گے مگر اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس وقت بھی ایف 16 طیارے کہیں نہ کہیں پرواز کر رہے ہوں گے۔

سٹیفن ڈولنگ
عہدہ,بی بی سی فیوچر

بشکریہ بی بی سی اردو

Post a Comment

0 Comments