Pakistan

6/recent/ticker-posts

آپریشن ضرب عضب، اپنوں اور غیروں نے پذیرائی کی....


نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے نام پر آج تک آگ اور خون کا جو کھیل جاری ہے، ایک اندازے کے مطابق اب تک اس میں 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔

ان پُر تشدد کارروایوں کی زد پر کیا حکومت، کیا فوج اور کیا عام شہری، کیا تعلیمی ادارے اور کیا بچے؛ سبھی آتے ہیں۔ ملک میں جاری دہشت گردی کے عفریت نے اس وقت شدت اختیار کی جب طالبان،القاعدہ اور ازبک فدایوں نے وزیرستان کے عوام کی املاک چھین کر انہیںعلاقے سے بے دخل کیا اور اپنے ٹھکانے بنالیے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی طویل کہانی کی وجوہات کے مختلف پہلو اپنی جگہ مگر جب نواز شریف تیسری مرتبہ برسراقتدار آئے تواُس کے بعد حکومت نے طالبان کو مذاکرات کی کھلے دل سے پیش کش کی۔ بد قسمتی سے ایسی سبھی کوششیں ناکام ہوئیں۔ مذاکرات کے دوران بھی طالبان نے اپنی کاروائیاں جاری رکھیں اور یوں جب عوام، فوج اور حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو فیصلہ کیا گیا کہ ان کا قلع قمع ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ سو یہ جاری آپریشن جون 2014 کے وسط میں شروع ہوا۔
آپریشن سے قبل طالبان اور ازبک فدائی کراچی ایئرپورٹ کو نشانہ بنا چکے تھے اور جناح ٹرمینل پرکھڑے طیاروں اور مسافروں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اس واقعے کے بعد ملک بھرسے یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ طالبان کے خلاف موثر آپریشن کی ضرورت ہے۔گو اس سے پہلے بھی فوج 8 آپریشن طالبان کے خلاف کرچکی تھی لیکن وہ سب کے سب سیاسی مصلحتوں کی نذر ہوگئے تھے۔
15 جون 2014 کو شروع ہونے والے اس آپریشن کو ضرب عضب کا نا م دیا گیا۔ ضرب عضب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار مبارک کا نام ہے، جس کا مطلب ہے ’’کاٹ دینے والی ضرب‘‘ یہ تلوار غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں استعمال ہوئی تھی۔

آپریشن کا آغاز وزیرستان سے کیا گیا، اس میں آرمی لڑاکا جیٹ طیاروں کے علاوہ گن شپ ہیلی کاپٹر ’’کوبرا‘‘ بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اہم کاروائیاں میر علی، میرانشاہ، دتہ خیل، غلام خان اور شوال میں جاری ہیں۔ فضائی کے ساتھ زمینی کاروائی بھی جاری ہے۔ پاک آرمی کے اہم ہدف دہشت گردوں کے ٹھکانے، ان کے تربیتی مراکز اور اسلحہ ڈپو ہیں۔ آپریشن سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو پشاور کور ہیڈ کوارٹر میں بریفنگ دی گئی تھی۔ ملک بھر کے عوام نے اس آپریشن کے آغاز پر مسرت کا اظہار کیا تھا۔

اس آپریشن کے بعد متاثرہ علاقوں سے آئی ڈی پیز کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، جو اطلاعات کے مطابق جاری ہے۔ فوج نے رجسٹریشن اور مکمل پڑتال کے بعد ان کو بنوں کیمپ بھجوایا گیا۔ بے دخل کیے گئے ان شہریوں کو پاک فوج نے خوارک اور ادویات کی فراہمی ممکن بنائی تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے امدادی کام سست رہے اور تاحال صورت حال مخدوش ہے۔

ابتدائی ایام میں 70 سے 75 ہزار افراد آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بے داخل ہوئے لیکن بعد میں آپریشن کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے تقریباً چھے لاکھ لوگ خیبر پختونخواہ کے مختلف بندوبستی علاقوں میں عارضی مقیم ہوئے اور سلسلہ جاری ہے۔ بے دخل ہونے والے افراد تما م تر مشکلات کے باوجود حکومتی فیصلے اور فوج کی آپریشن کی حکمت عملی سے مطمئن ہیں۔ بیش ترآئی ڈی پیز کے مطابق امن کے لیے طالبان کا ان کے علاقوں سے مکمل صفایا لازمی ہے تاکہ وہ اپنے علاقوں میں واپس جا کر نئی زندگی کا آغاز سکیں۔

پاک فوج نے کہا تھا کہ آپریشن ضربِ عضب منصوبے کے مطابق جاری ر ہے گا، شمالی وزیرستان کے لوگ نہیں چاہتے کہ شدت پسند ان کے علاقوں میں ٹھکانے بنائیں۔ ضربِ عضب کی کمان کرنے والے میجر جنرل ظفر خان نے بتایا تھا کہ شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کے 80 فی صد علاقوں کو طالبان سے خالی کرالیا گیا ہے اور ان کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو تتر بتر کر دیا گیا ہے گو کہ اس علاقے کو سو فی صد سیل کرنا ممکن نہیں لیکن جو عناصر یہاں سے نکل گئے ہیں، انھیں علاقے میں واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔

ستمبر تک آپریشن ضرب عضب میں910 دہشت گرد ہلاک ہو چکے تھے جب کہ پکڑے جانے والے زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات میں قابل ذکر حد تک کمی دیکھی گئی۔

چراٹ میں اسپیشل سروسز گروپ سے خطاب میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ اعلیٰ تربیت یافتہ اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل فوج کی مدد سے دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا اور دہشت گردوں کو اْن کی پناہ گاہوں حتٰی کہ اْن دشوار گزار علاقوں سے بھی ختم کیا جائے گا، جہاں وہ روپوش ہیں۔

شمالی وزیرستان میں فوج کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کا تعین نہیں کرسکتے کہ یہ آپریشن کتنے ہفتوں یا مہینوں میں مکمل ہو گا اور اس سلسلے میں کوئی تاریخ دینا قبل از وقت ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ لاکھوں افراد اس آپریشن سے متاثر ہوئے لیکن قوم کو یہ سب کچھ مل کر برداشت کرنا ہوگا۔ طالبان جاتے ہوئے پورے علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا گئے ہیں، جن سے فوج کو پیش قدمی اور نقل و حرکت میں دشواریوں کا سامنا ہے، ان سرنگوں کی صفائی پر زیادہ وقت صرف ہو رہا ہے۔

آپریشن شروع ہونے سے ستمبر تک 82 سکیورٹی اہل کار شہید اور 269 زخمی ہوئے تھے۔ آپریشن ضرب عضب میں دیسی ساختہ بم بنانے والی 27 فیکٹریوں، ایک راکٹ ساز اور ایک اسلحہ تیار کرنے والے کارخانہ بھی تباہ کیا جا چکا تھا۔ قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق ناممکن ہے لیکن آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد کسی بھی ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے انٹیلی جنس اداروں کی مدد سے ملک بھر میں 2274 آپریشن کیے گئے، ان میں 42 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور 114 شدت پسندوں کو حراست میں لیا گیا۔

نومبر تک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں910 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا تھا۔ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ فوجی آپریشن میں دیسی ساختہ بم بنانے والی 27 فیکٹریوں، ایک راکٹ ساز اور ایک اسلحہ تیار کرنے والے کارخانے کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق شمالی وزیرستان میں میران شاہ، میر علی، دتہ خیل، بویا اور دیگان کے علاقوں سے شدت پسندوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا جب کہ 88 کلومیٹر طویل کجھوری، میرعلی، میران شاہ، دتہ خیل روڈ کو بھی صاف کر دیا گیا ہے۔ نومبر تک 82 سکیورٹی اہل کار شہید اور 269 زخمی ہوئے، ان میں سے 42 شمالی وزیرستان، 23 مختلف قبائلی ایجنسیوں اور 17 ملک کے مختلف علاقوں بشمول کراچی اور بلوچستان شامل ہیں۔

آئی ڈی پیز کے لیے وفاقی حکومت 26 ارب روپے جاری کرچکی ہے۔ 70 کروڑ ڈالرکے وعدے بھی ہوچکے ہیں تاہم تاحال متاثرہ علاقوں کی تعمیرنو کے لیے رقم کا صحیح اندازہ لگانا فاالحال مشکل ہے البتہ وزارت اقتصادی امور کے مطابق متاثرین کی آبادی کاری اور متاثرین سیلاب کے لیے تقریباً دو ارب 30 کروڑ ڈالر ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے پہلے مرحلے میں ریلیف کا کام اپنے وسائل سے کیا ہے تاہم ابھی بہت کام باقی ہے، جس کے لیے عالمی برادری کا ساتھ ضروری ہے ۔

نومبر میں پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے دوران جنگ جُووں سے جواسلحہ پکڑا گیا، اُس کی مالیت کروڑں ڈالر ہے۔ انہیں مزید بتا یا گیا کہ پاکستان آرمی نے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں گذشتہ پانچ ماہ میں قریباً بارہ سو جنگ جوؤں کو ہلاک کیاگیاہے اور ان کے ’جوابی وار‘ کی صلاحیت پر بھی کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ یہ بات سیکیوریٹی فورسز کے انچارج میجر جنرل ظفراللہ خان نے صحافیوں کو بتائی تھی، بعدازاں صحافیوں کو آزاد کرائے گئے علاقے بھی دکھائے گئے۔

انھوں نے صحافیوں کو بعض ایسی تباہ حال عمارتیں اور مساجد دکھائیں، جہاں طالبان جنگ جو یرغمالیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتے تھے یا پھر وہاں وہ پروپیگنڈے کے لیے ویڈیوز بناتے تھے۔ پاک آرمی نے ضربِ عضب کے دوران پہلے جنگی طیاروں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور اس کے بعد توپ خانے سے زمینی کارروائی کی۔

میجرجنرل ظفراللہ خان نے مْردوں کے احترام کے پیش نظر کسی مارے گئے دہشت گرد کی تصویر صحافیوں کو نہیں دکھائی اور بتایا کہ دوسوتیس مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جب کہ اب تک ایک سو بتیس ٹن دھماکا خیز مواد، اسلحے اور گولہ بارود کی بھاری مقدار اور بڑی تعداد میں گاڑیوں کو پکڑا گیا ہے۔ انھوں نے امریکی ساختہ ایک ہومر جیپ بھی دکھائی، جس کی ونڈسکرین گولیوں سے چھلنی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ علاقے میں جگہ جگہ کھلونا بم نصب ہیں اور فوجی گھر گھر تلاشی لے کر انھیں ناکارہ بنا رہے ہیں تاہم انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ آپریشن ضرب عضب کب تک جاری رہے گا۔ اس عرصے تک جنگ جوؤں کے خلاف اس کارروائی سے قریباً دس لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے اور وہ تب سے صوبۂ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں خیمہ بستی یا پھر اِدھر اُدھر عزیزواقارب کے ہاں مقیم ہیں۔ اب سردی میں شدت آنے کے بعد وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے منتظر ہیں۔

’قوم بن کر دہشت گردوں کو شکست دینی ہے‘
پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر پہلے ہی ایک تکلیف دہ یاد تھا لیکن جب 2014 کے دسمبر میں یہ تاریخ آئی مندمل ہوتے زخم ایک بار پھر کھل گئے۔ اس دن پشاور کے ورسک روڈ پر واقع پاک فوج کے زیرانتظام اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد شہید اور 120 سے زیادہ زخمی کردیے گئے، گو پاک فوج کی جوابی کارروائی میں ساتوں دہشت گرد مارے گئے لیکن اس اندوہ ناک واقعہ نے ملک کی سیاسی ، سماجی، نظریاتی فضا کو لمحوں میں بدل کے رکھ دیا۔

یہ دہشت گرد سیڑھی لگا کر اسکول میں داخل ہوئے اوراسکول آڈیٹوریم میں موجود بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی تھی، جس پر کوئیک رسپانس فورس 10 سے 15 منٹ کے دوران وہاں پہنچی اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ اسکول میں کل 1100 کے قریب بچے اور اسٹاف ممبر رجسٹرڈ تھے، جن میں سے 960 افراد کو بہ حفاظت نکال لیا گیا جب کہ حملے میں 121 بچوں سمیت3 اسٹاف ممبرز زخمی ہوئے، حملے میں ایس ایس جی کے 7 جوان اور 2 افسر بھی زخمی ہوئے، افسروں کی حالت تشویش ناک تھی۔

دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی اور کہا کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان آپریشن کا جواب ہے۔ اس اندوہ ناک سانحے پر وزیر اعظم نواز شریف نے 3 روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا جب کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب حکومت نے بھی دہشت گردوں کے اس مکروہ فعل کی مذمت کرتے ہوئے صوبے بھر میں 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان، ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین، مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت، عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت ملک کی دیگر سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں نے واقعے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے شہدا کے لواحقین سے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
اس واقعہ کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھاکہ پشاور کے اسکول پر حملہ کرنے والے دہشت گرد ایک بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے، جن کے پاس کئی دنوں کا اسلحہ اور راشن بھی موجود تھا جب کہ فوج نے آپریشن کے دوران دہشت گردوں کی مانیٹرنگ کرکے ان کے تانے بانے کا پتا لگایا لیا تھا۔ پشاور میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ فوج نے اس بات کا پتا لگا لیا ہے کہ دہشت گرد کہاں اور کس سے رابطے میں تھے اور ان کی یہ کارروائی کہاں سے کنٹرول کی جارہی تھی تاہم آپریشن ضرب عضب کے باعث ان تفصیلات کو ابھی سامنے نہیں لاسکتے البتہ اگلے چند روز میں اس کا اندازہ ہوجائے گا۔

دہشت گرد ایک بڑی منصوبہ بندی کرکے آئے تھے اور بہت زیادہ نقصان کرنا چاہتے تھے کیوںکہ ان کے پاس کئی دنوں کا اسلحہ اور راشن موجود تھا، جس سے ان کے خطرناک ارادے ظاہر ہوتے تھے ۔ میجر جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ دہشت گردوں نے یقینی طور پر حملے سے پہلے اس جگہ کو دیکھا اور انہیں اس سے متعلق معلومات بھی فراہم کی گئی ہوں گی، جس کے باعث وہ منصوبہ بندی کرکے اندر پہنچے، دہشت گردوں نے جس وحشیانہ انداز میں بچوں پر فائرنگ کی اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ان کا کسی کو یرغمال بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور آپریشن کے دوران ان کی طرف سے کسی قسم کا مطالبہ بھی سامنے نہیں آیا جب کہ مارے گئے تمام دہشت گردوں کی تصاویر موجود ہیں جو بعد میں میڈیا کو فراہم کی جائیں گی۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پاک فوج نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم نے ایک قوم بن کر دہشت گردوں کو شکست دینی ہے، قوم کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرے۔ ہمیں پشاور حملے کے بعد اس سے بڑا سبق نہیں مل سکتا، اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم اس لعنت کے خلاف اکھٹے ہو جائیں۔ پشاور میں اسکول پر حملے کے بعد جنرل راحیل شریف فوراً افغانستان گئے، جہاں انہوں نے افغان صدر، افغان فوج کے سربراہ اور وہاں موجود بین الاقوامی فوج کے سربراہ سے ملاقاتیں کیں اور انہیں بتایا کہ دہشت گردوں نے افغانستان میں بیٹھ کر اس حملے کی کاروائی کو کنٹرول کیا۔

دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کی منظوری

سانحے کے بعد ایک ہنگامی اجلاس میں دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس ہنگامی اجلاس میں ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اسکول پر حملے میں بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد ملک کے مختلف حلقوں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ سزائے موت پر عائد پابندی ختم کی جائے۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے تمام جماعتوں کی مشاورت سے دہشت گردوں سے مذاکرات کیے، جس کا یہ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ کرنے والی عدالتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں اور مقدمات سالہاسال تک چلتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کی تفتیش کی کمزوریاں الگ ہیں اور جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ انھوں نے پارلیمان پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے سوچ بچار کریں۔ اس موقعے پر انھوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی اپنی سرزمین کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

حکومتِ پاکستان نے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کی منظوری دے دی تھی تاہم یہ باز گشت پھر بھی سنائی دیتی تھی کہ ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کی موثر قانون سازی اور تفتیش میں کیوں ناکام رہا؟ اس واقعے کے بعد وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے موصول ہونے والے تحریری بیان میں بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث مجرموں کی سزائے موت پر عائد پابندی ختم کرنے کی منظوری دی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف نے حکومت پاکستان کی جانب سے موت کی سزا سے اٹھائی جانے والی پابندی پر غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا’’پشاور کے واقعے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کا ایک جذباتی ردعمل سامنے آیا ہے، میری نظر میں یہ ایک جذباتی ردعمل ہے، وزیراعظم نے محسوس کیا ہو گا ایکشن لینے کے لیے دہشت گردی کے خلاف ملک اس وقت متحد ہے لیکن واضح ہو کہ پاکستان میں سزائے موت پر رسمی نہیں بل کہ غیر رسمی پابندی عائد تھی‘‘۔

کب کہ زہرہ یوسف کے برعکس پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ایڈوکیٹ لطیف آفریدی یہ امید کررہے تھے کہ اگر دہشت گردی کے مقدمات میں موت کی سزا پر عمل درآمد ہوجائے تو اس کے اثرات بہت اچھے ہوں گے۔ اس طرح کے مقدمات سینکڑوں ہیں، اگر ان پر عمل درآمد ہوجائے تو دوسرں کے لیے یہ نشان عبرت بن سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کا اعلان تو کر دیا گیا ہے تاہم اب دیکھنا یہ کہ ان پر عمل دراآمد بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟ دہشت گرد مقدمات میں موت کی سزا سن چکے اور ان کی اپیلیں بھی مسترد ہو چکی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان نے کہا تھا اس ضمن میں اعداد وشمار اکھٹے کیے جا رہے ہیں۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے نام سے لاہور میں قائم ایک ادارے کی سرابراہ سارہ بلال نے اس حکومتی فیصلے کو عجلت پر مبنی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ’’پاکستانی جیلوں میں دہشت گردی کے مقدمات کے تحت سزا پانے والے قیدیوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2012 میں پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی کل تعداد 6000 سے زیادہ ہے، ان مجرموں میں سے 10 سے 12 فی صد قیدی ایسے ہیں، جنھیں دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی گئی۔ 2012 میں پنجاب میں 641 سندھ میں 131 خیبرپختونخوا میں 20 اور بلوچستان میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت موت کی سزا پانے والوں کی تعداد 26 ہے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی سربراہ کا دعویٰ تھا کہ دہشت گردی کی عدالتوں سے ایسے مجرم بھی سزا یافتہ ہیں، جن کا جرم دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔ انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے سزائے موت اور خاص طور پر دہشت گردی کے اقدامات میں ملوث افراد کو سزا دیے جانے کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ پاکستان کے عدالتی نظام خصوصاً تفتیشی نظام بہت کم زور ہے اور اس کی وجہ سے دہشت گردی کے مقدمات میں 60 فی صد ایسے مجرم ہیں، جنھیں شواہد نہ ہونے کی بنا پر عدالتیں بری کرچکی ہیں۔ جب تحقیقات کم زور ہوں تو اس میں بہت گنجائش ہوتی ہے کہ اس میں موت کی سزا کسی معصوم کو بھی ہو جائے، اب پھانسی کی سزا دوبارہ بحال ہو رہی ہے تو اس طرح کسی معصوم کو بھی موت کی سزا ہو سکتی ہے۔

قانونی ماہر جسٹس (ر) شیر محمد نے کہا کہ 1997 میں انسداد دہشت گردی کا قانون بنا اور اس کے بعد ’’ایکشن ان ایڈ آف سول پارو ریگولیشن 2011‘‘ سے بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ میرے خیال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں قانون اور آئین کے دائرہ اختیار کے اندر باہمی مفاہمت ہونی چاہیے اور انھیں ان پیچیدگیوں کو سمجھنا چاہیے، میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ بہت سے چالان جو عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں، ناقص ہوتے ہیں۔ ان دو قوانین کے تحت بہت سارے لوگوں کو بغیر عدالتی کاروائی کے حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد بننے والا تحفظ پاکستان ایکٹ بھی بہت سخت ہے۔

جسٹس (ر) شیر محمد کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی عدالتیں تو بہت زیادہ ہیں لیکن ناقص شہادتوں کی بنیاد پر بہت سے لوگ عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چشم دید گواہ پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بل کہ سائنسی ترقی سے بھی استفادہ کرنا چاہیے، جو پاکستان میں نہیں ہورہا، میرے خیال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں قانون اور آئین کے دائرۂ اختیار کے اندر باہمی مفاہمت ہونی چاہیے اور انھیں ان پیچیدگیوں کو سمجھنا چاہیے، بہت سے چالان جو عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں، وہ ناقص ہوتے ہیں اور عدالت کی مجبوری ہوتی ہے کہ جب تک قابل یقین شہادت نہ ہو تو وہ کسی کو سزا نہیں دیتی۔
 
 شدت پسندوں کے سرغنوں اور ان کو تربیت دینے والوں کا آج تک پتہ نہیں لگایا جا سکا۔ موت کی سزا کا قانون موجود ہے، جس سے بحیثیت وکیل اتفاق یا اختلاف کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن اگر اس قانون کے تحت شہادت کا معیار اور تفتیش کا انداز موثر نہ ہو تو یہ قوانین بے اثر ہو جاتے ہیں۔ لطیف آفریدی کا خیال ہے کہ پاکستان کو اس وقت دیگر ممالک میں انسداد دہشت گردی کے قوانین سے سیکھنا چاہیے، جن میں سری لنکا، برطانیہ اور بھارت شامل ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں 2008 کے بعد سے اب تک سول عدالت کی طرف سے دی جانے والی موت کی کسی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
سزائے موت

سزائے موت (punishment Capital) کسی بھی شخص پر عدالتی طور پر سنگین جرم ثابت ہونے پر دی جانے والی ہلاکت یا قتل کی سزا ہے۔ قتل یا سزائے موت ماضی میں تقریباً ہر معاشرے میں موجود رہی، فی الحال صرف 58 ممالک میں یہ سزا باقی ہے جب کہ 95 ممالک میں اس پر پابندی ہے۔ دنیا کے باقی ممالک میں پچھلے دس سال میں کسی کو بھی موت کی سزا نہیں سنائی گئی اور وہاں صرف مخصوص حالات، جیسے جنگی جرائم کی پاداش میں ہی سزائے موت دی جا تی ہے۔

یہ معاملہ مختلف ممالک اور ریاستوں میں متنازعہ ہے اور اس بارے میں مختلف معاشروں میں سیاسی اور تہذیبی بنیادوں پر مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ یورپی یونین میں سزائے موت پر ’’بنیادی حقوق کے چارٹر‘‘ کے مطابق پابندی ہے گو اس وقت دنیا کے زیادہ ممالک سزائے موت کو ترک کر چکے ہیں لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اب بھی دنیا کی تقریباً 60 فی صد آبادی والے ممالک میں سزائے موت قانونی حیثیت کی حامل ہے۔ ان ممالک میں زیادہ گنجان آباد ممالک، جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکا، عوامی جمہوریۂ چین، بھارت اور انڈونیشیا شامل ہیں۔

خیال رہے کہ یو ایس اے کی چند ریاستوں میں سزائے موت پر پابندی ہے لیکن وفاقی طور پر سزائے موت کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد سے دنیا بھر میں سزائے موت پر پابندی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ 1977 میں 16 ممالک نے سزائے موت پر پابندی لگائی۔2010 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے شائع ہونے والی معلومات کے مطابق مجموعی طور پر 95 ممالک نے اب تک سزائے موت پر پابندی عائد کی ہے،9 ممالک نے غیر معمولی حالات کے سوا اس سزا پر پابندی لگائی ہے، جب کہ35 ممالک نے سزائے موت کا قانون ہونے کے باوجود پچھلے دس سال سے اس پر عمل نہیں کیا اور ان ممالک میں یہ قانون خاتمے کی جانب گامزن ہے۔

ممالک ایسے ہیں، جہاں سزائے موت کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور یہاں اس سزا پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2009 میں دنیا کے 18 ممالک میں تقریباً 714 افراد کو سزائے موت دی گئی۔ اس کے علاوہ کئی ممالک ایسے ہیں، جو سزائے موت پر عمل درآمد سے متعلق معلومات فراہم نہیں کرتے۔ ان میں عوامی جمہوریۂ چین سر فہرست ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں ہر سال سیکڑوں افراد کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ 2010 کی اول سہ ماہی تک دنیا بھر میں 17000 افراد کو سزائے موت سنائی گئی اوراس سزا پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔

غلام محی الدین

Post a Comment

0 Comments