7 مارچ 2017ء کے روز پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ (پی اے سی کامرہ) میں اوور ہال کئے گئے ایک ہزارویں طیارے کی رولنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان نے کہا کہ پی اے سی کامرہ کا مستقبل ’پانچویں نسل‘ کے لڑاکا طیاروں کا ہے۔
اہم اور معنی خیز بیان
ایک عام شہری اس بیان کو ایک سرکاری تقریب کا حصہ سمجھ کر نظرانداز کر سکتا ہے لیکن دفاعی حلقوں سے وابستہ افراد اور ماہرین کے نزدیک یہ انتہائی اہم اور معنی خیز بیان ہے۔ کتنا اہم اور معنی خیز؟ اس کا اندازہ اگلے ہی روز ٹائمز آف انڈیا میں نمایاں طور پر شائع ہونے والی ایک خبر سے لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت صرف اسی وقت روس سے پانچویں نسل کے لڑاکا طیارے خریدے گا جب وہ ان کی ’’مکمل ٹیکنالوجی‘‘ بھارت کو منتقل کرے گا۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ، اس خبر میں بھارتی اور روسی حکام کے درمیان جن مذاکرات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ فروری میں ہوئے تھے لیکن یہ خبر پاکستانی ایئر چیف مارشل سہیل امان کے مذکورہ بیان کے فوراً بعد جاری کی گئی۔
بھارت سے قطع نظر، یہ بیان اور بھی کئی اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مثلاً یہ پاک فضائیہ کے حاضر سروس سربراہ کا بیان ہے، یہ بیان دفاعِ وطن سے متعلق ہونے والی ایک سرکاری تقریب میں دیا گیا، اِس بیان کا تعلق ایک ایسے ادارے (پی اے سی کامرہ) سے ہے جو پاکستان میں فضائی دفاع کے حوالے سے کلیدی اہمیت رکھتا ہے، اور یہ کہ پی اے سی کامرہ ہی وہ ادارہ ہے جہاں پاکستان کے مایہ ناز لڑاکا طیارے ’جے ایف 17 تھنڈر‘ کی پیداوار کے علاوہ اسے خوب سے خوب تر بنانے کے لئے تحقیقی و ترقیاتی کام بھی جاری ہے۔ مختصر یہ کہ مذکورہ اور ایسی ہی دوسری وجوہ کی بناء پر اسے دفاعِ وطن کے نقطہِ نگاہ سے پالیسی بیان ہی قرار دیا جا سکتا ہے نہ کہ فردِ واحد کی ذاتی رائے یا خواہش۔ البتہ پاک فضائیہ کے سربراہ کم و بیش اسی طرح کے خیالات کا اظہار گزشتہ برس یومِ پاکستان (23 مارچ 2016) کے موقعے پر پاکستان ٹیلی ویژن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کرچکے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی سے تعلق اور دفاعی معاملات سے خصوصی دلچسپی کی بناء پر ہمیں اس بیان کے جس حصے نے سب سے زیادہ متوجہ کیا، اس کا تعلق مستقبل میں پی اے سی کامرہ میں ’پانچویں نسل‘ کے لڑاکا طیاروں کی ممکنہ تیاری سے ہے۔
24 اکتوبر 2016ء کے روز اسی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’جے ایف 17 تھنڈر‘ لڑاکا طیارے کے ’بلاک 3‘ کے ڈیزائن کو حتمی شکل دی جا چکی ہے، جس کے بعد یہ چوتھی نسل کے لڑاکا طیاروں سے بھی زیادہ جدید ہو جائے گا یعنی اپنی صلاحیتوں میں امریکی ایف 16، ایف اے 18 اور ایف 15، روس کے سخوئی 27، اور فرانس کے میراج 2000 جیسے مشہور لڑاکا طیاروں تک کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ اِس تحریر میں جہاں یہ بتایا گیا تھا کہ اُس وقت جے ایف 17 تھنڈر کی ٹیکنالوجی میں پاکستان کا حصہ 58 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جس کے مستقبل میں مزید بڑھنے کی توقع ہے، وہیں یہ بھی لکھا تھا کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پی اے سی کامرہ میں جے ایف 17 تھنڈر کے اِس سے بھی زیادہ جدید ورژن ’بلاک 4‘ پر ابتدائی کام کا آغاز ہو چکا ہے جو ممکنہ طور پر پانچویں نسل کا لڑاکا طیارہ ہوگا۔ اپنے حالیہ خطاب میں پاک فضائیہ کے سربراہ نے ’’پی اے سی کامرہ کا مستقبل پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کا ہے‘‘ کہہ کر اس امکان پر یقین کی مہر ثبت کردی ہے۔
پانچویں نسل کے لڑاکا طیارے
آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم بلاوجہ ہی اس بیان میں ’پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں‘ کا تذکرہ پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں ورنہ اس میں ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ تو جناب! چلتے چلتے یہ بھی واضح کئے دیتے ہیں کہ اب تک عالمی دفاعی ماہرین ’’پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں‘‘ کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہوئے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ درج ذیل خصوصیات کو پانچویں نسل کے کسی بھی لڑاکا طیارے میں لازماً دیکھنا چاہتے ہیں:
وہ اسٹیلتھ ہو یعنی ریڈار پر نہ دیکھا جا سکتا ہو۔
وہ کثیرالمقاصد ہو یعنی فضائی برتری سے لے کر فضائی دفاع تک، ہر طرح کے مقصد میں مؤثر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہو۔
وہ دورانِ پرواز کم فاصلہ طے کرکے واپس پلٹنے کی صلاحیت (High maneuverability) بھی رکھتا ہو۔
وہ رابطوں اور رہنمائی کے جدید ترین نظاموں (ایڈوانسڈ ایویانکس) سے لیس ہو۔
اس میں ’’نیٹ ورکڈ ڈیٹا فیوژن‘‘ کیا گیا ہو، یعنی مختلف سینسروں اور ایویانکس کے آلات سے حاصل ہونے والا ڈیٹا نہ صرف آپس میں مربوط ہو بلکہ ایک ہی جگہ پر اس کی پروسیسنگ بھی کی جائے۔
گرد و پیش سے آگاہی (سچویشنل اویئرنیس) کا نظام بھی انتہائی جدید اور اس نوعیت کا ہو کہ جس کی مدد سے طیارے کا پائلٹ بڑی آسانی سے وسیع تر علاقے پر نظر رکھ سکے۔ یعنی وہ قریب اور دور پرواز کرنے والے حریف و حلیف طیاروں کے ساتھ ساتھ زمینی خدو خال اور فضائی دفاعی نظاموں وغیرہ پر بھی حقیقی وقت (رئیل ٹائم) میں بہ آسانی نظر رکھ سکے۔
وہ ’’سافٹ ویئر ڈیفائنڈ‘‘ طیارہ ہو یعنی اس کی کارکردگی کا انحصار ہارڈویئر (مائیکروپروسیسر، مائیکرو کنٹرولر) سے زیادہ سافٹ ویئر(کمپیوٹر پروگرامز) پر ہو، یعنی وہ ایسے زبردست سافٹ ویئر سے لیس ہو جو کم تر درجے کے ہارڈویئر پر بھی طیارے کو غیرمعمولی صلاحیتیں دے سکیں۔
اس کے انجن اتنے طاقتور ہوں کہ طیارہ آواز سے دوگنی رفتار پر بہت دیر تک پرواز کر سکے یعنی وہ اپنے ’’آفٹر برنر‘‘ استعمال کئے بغیر ہی آواز سے دوگنی رفتار پر گھنٹوں تک پرواز کرنے کا اہل بھی ہو.
وہ اکیلے ہی پرواز کرنے کے قابل نہ ہو بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے ساتھ درجن بھر ’غیر انسان بردار حملہ آور طیاروں‘ (UCAVs) کے جھرمٹ میں پرواز کرسکے اور اپنی تباہ کن حربی صلاحیتوں کو دوچند کر سکے۔
واضح رہے کہ یہ صرف چیدہ چیدہ نکات ہیں جو ہم نے عام قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کےلیے بیان کئے ہیں ورنہ ان میں سے ہر پہلو اپنی اپنی جگہ بہت تفصیلی اور جزئیات سے بھرپور ہے۔
حاضر سروس اور مجوزہ طیارے
اس وقت دنیا میں صرف ایک ’’حاضر سروس‘‘طیارہ ایسا ہے جسے بجا طور پر پانچویں نسل کا لڑاکا طیارہ کہا جا سکتا ہے، اور وہ ہے امریکی فضائیہ کا ’’ایف 22 ریپٹر‘‘ (F-22 Raptor)۔ اگرچہ امریکہ ہی کے ’’ایف 35 لائٹننگ ٹو‘‘ (F-35 Lightning II) کو بھی پانچویں نسل کا لڑاکا طیارہ قرار دیا جاتا ہے لیکن اس دعوے سے بیشتر دفاعی ماہرین اتفاق نہیں کرتے۔ امریکہ کے سوا پانچویں نسل کے جتنے بھی لڑاکا طیارے ہیں، وہ سب کے سب یا تو ابھی آزمائشی مرحلے پر ہیں یا پھر ان منصوبوں پر تحقیقی و ترقیاتی (R&D) کام جاری ہے۔
مثلاً اِس وقت بھارت میں پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں سے متعلق دو منصوبے جاری ہیں جن میں سے پہلا ’’ہال اے ایم سی اے‘‘ (HAL AMCA) اور دوسرا ’’پی ایم ایف‘‘ (PMF) کہلاتا ہے۔ اگرچہ ان دونوں منصوبوں میں بھارت اور روس ایک دوسرے کے شریک ہیں لیکن یہ اقرار صرف ’’پی ایم ایف‘‘ کے لئے کیا گیا ہے جو پانچویں نسل کے روسی لڑاکا طیارے ’’ٹی 50‘‘ سے ماخوذ ہے جبکہ یہی وہ طیارہ بھی ہے جس کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے بارے میں ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ شائع کی تھی جس کا تذکرہ اس تحریر کے شروع میں کیا جا چکا ہے۔ امریکہ، روس اور بھارت کے علاوہ پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کے میدان میں چین، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی بھی موجود ہیں لیکن اِس وقت ان میں بھی چین اپنے جے 31 اور جے 20 لڑاکا طیاروں کے ساتھ سرِفہرست ہے جو آزمائشی پروازیں کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ 2020 تک ان کی محدود پیداوار بھی شروع کر دی جائے گی۔
آٹھواں ملک
ان تمام معلومات کے پیشِ نظر پاکستان دنیا کا وہ آٹھواں ملک ہے جو پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں پر کام شروع کر رہا ہے۔ ماضی کو رہنما بنائیں تو قرینِ قیاس یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں پر تحقیقی و ترقیاتی کاموں کی ابتداء چینی تعاون سے ہو گی اور پاکستانی ماہرین چینی تجربے اور مہارت سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے تقاضوں کے مطابق یہ منصوبہ خود آگے بڑھائیں گے۔ یہ بات اس لیے بھی مناسب لگتی ہے کیونکہ جے ایف 17 تھنڈر کے معاملے میں پاکستان کی عین یہی حکمتِ عملی رہی ہے جس کے زبردست نتائج آج ساری دنیا کے سامنے ہیں۔
دفاعی ویب سائٹ ’’قوۃ‘‘ کے تجزیہ نگار بلال خان لکھتے ہیں کہ پی اے سی کامرہ میں جے ایف 17 تھنڈر ’بلاک 3‘ کی پیداوار ممکنہ طور پر 2019ء تک شروع کر دی جائے گی لیکن چونکہ اس ادارے کے پاس پہلے ہی پاک فضائیہ میں شامل سارے طیاروں کی اوورہالنگ، تیاری اور جدت طرازی وغیرہ کی ذمہ داری ہے اس لئے نئی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لئے اسے مزید توسیع کی ضرورت بھی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پی اے سی کامرہ ماضی میں بھی جے ایف 17 کے انجن (آر ڈی 93) کا اوورہالنگ پلانٹ حاصل کرنے کے لئے روسی ادارے ’کلیموف‘ سے مذاکرات کرتا رہا ہے۔ یعنی مستقبل میں پی اے سی کامرہ ہی وہ ادارہ بنے گا جہاں جدید لڑاکا طیاروں کے جیٹ انجن بھی اوورہال کئے جائیں گے۔
’لکھنا آسان اور کرنا مشکل‘ کے مصداق، ان مقاصد کا حصول اتنا آسان نہیں کہ جتنی سہولت سے یہاں لکھ دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مختصر، اوسط اور طویل مدت کی پائیدار منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے جس پر عملدرآمد کے نتائج میں جدت طرازی کے ساتھ ساتھ خود انحصاری بھی شامل ہے جو دفاعی نقطہ نگاہ سے خصوصی اور فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے۔ پاک فوج کے دفاعی منصوبہ ساز ان ضروریات کو ہم سے کہیں بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں، اسی لئے ’’کامرہ ایوی ایشن سٹی‘‘ کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا گیا ہے، جِسے پاکستان میں طیارہ سازی کی یونیورسٹی بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں اپریل 2017 سے پوسٹ گریجویٹ (ماسٹرز اور پی ایچ ڈی) پروگراموں کا آغاز کر دیا جائے گا۔
ایوی ایشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت جہاں جاری منصوبوں کو معیاری اور مقداری اعتبار سے خوب تر بنائے گی وہیں تحقیقی و ترقیاتی (R&D) سرگرمیوں کے متقاضی نئے منصوبوں کو بھی مضبوط بنیادیں میسر آئیں گی۔ ویسے تو پی اے سی کامرہ میں لائسنس پر مختلف غیرملکی ریڈار تیار کئے جا رہے ہیں لیکن قوی امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں یہاں فضائی دفاعی ریڈاروں کے علاوہ جدید ’’اے ای ایس اے ریڈارز‘‘ (AESA Radars) کی تیاری بھی لائسنس، ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی بنیادوں پر شروع کر دی جائے گی۔
غرض کہ انجن، ایئرفریم، ایویانکس اور ایسے ہی دوسرے اجزاء کو مربوط انداز میں یکجا کرتے ہوئے پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں پر کام شروع کیا جائے گا۔
تاہم، بلال خان کا کہنا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ اِس ضمن میں پی اے سی کامرہ کسی نئے اور ’خالص مقامی‘ منصوبے پر کام شروع کرے گا یا پھر چین کے کسی جاری منصوبے (جیسے کہ ایف سی 31) میں شراکت داری کرے گا۔
صورت اور نوعیت کچھ بھی ہو، لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ جے ایف 17 تھنڈر سے حاصل ہونے والی کامیابی کو دیکھتے ہوئے پاک فضائیہ نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے فیصلہ کر لیا ہے کہ مقامی طور پر پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں پر بھی کام شروع کر دیا جائے، اور عسکری نوعیت کے منصوبوں سے متعلق اہم عوامی اعلانات صرف اسی وقت کئے جاتے ہیں جب دفاعی ادارے اپنی تیاری مکمل کر چکے ہوں۔ اس تناظر میں ایئر چیف مارشل جناب سہیل امان کا یہ بیان کہ کامرہ کا مستقبل پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کا ہے، اس خیال کو تقویت پہنچاتا ہے کہ صرف منصوبہ بندی ہی نہیں بلکہ عمل درآمد کی حد تک بھی بہت کچھ ہو چکا ہے جس کے بارے میں عامۃ الناس کو صحیح وقت آنے پر ہی بتایا جائے گا۔
جے ایف 17 تھنڈر بلاک 4؟
آخر میں رہ جاتا ہے یہ نکتہ کہ کیا پاکستان ایئروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں بننے والا پانچویں نسل کا لڑاکا طیارہ جے ایف 17 تھنڈر ’بلاک 4‘ ہوگا یا نہیں؟ تو اِس سوال کا معقول جواب یہ ہے کہ پانچویں نسل کے لڑاکا طیارے اپنی ساخت، کردار اور صلاحیتوں کے اعتبار سے چوتھی نسل والے لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں بہت مختلف اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ لہذا ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ پی اے سی کامرہ میں پانچویں نسل کے جس لڑاکا طیارے پر کام ’ہو رہا ہے‘ اسے جے ایف 17 تھنڈر منصوبے کا منطقی تسلسل ضرور قرار دیا جا سکتا ہے لیکن بہرکیف وہ جے ایف 17 تھنڈر ’بلاک 4‘ ہر گز نہیں ہو گا۔ البتہ، اپنے نام اور عنوان سے قطع نظر، وہ منصوبہ دفاعی ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستانی انجینئروں اور سائنسدانوں کی فنی مہارت کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہوگا.
انشاء اللہ۔
علیم احمد
0 Comments