Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستانی فوجی جس کی بہادری کا دشمن بھی قائل ہوا

یہ بات شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی داد دے اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ فلاں فوجی کی بہادری کی قدر کی جانی چاہیے۔ سنہ 1999 کی کارگل جنگ کے دوران ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیر خان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ کی کہ انڈین فوج نے ان کی شجاعت کا اعتراف کیا۔
اس لڑائی کی کمانڈ سنبھالنے والے بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ نے بی بی سی کے ریحان فضل کو بتایا کہ : 'جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کا قائل ہو چکا تھا۔ میں سنہ 71 کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں۔ میں نے کبھی پاکستانی افسر کو ایسے قیادت کرتے نہیں دیکھا۔ باقی سارے پاکستانی فوجی کرتے پاجاموں میں تھے اور وہ تنہا ٹریک سوٹ میں تھا۔'

خودکش حملہ
حال ہی میں کارگل پر شائع ہونے والی کتاب 'کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار' کی مصنفہ رچنا بشٹ راوت کا کہنا ہے کہ 'پاکستانیوں نے ٹائیگر ہل پر پانچ مقامات پر اپنی چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ پہلے آٹھ سکھ رجمنٹ کو ان پر قبضہ کرنے کا کام دیا گیا لیکن وہ یہ نہیں کر پائے۔ ’بعد میں جب 18 گرینیڈیئرز کو بھی ان کے ساتھ لگایا گیا تو وہ کسی طرح اس پوزیشن پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن کیپٹن شیر خان نے ایک جوابی حملہ کیا۔ پہلی بار ناکام ہونے کے بعد انھوں نے اپنے فوجیوں کو دوبارہ تیار کر کے حملہ کیا۔ ’جو یہ جنگ دیکھ رہے تھے وہ سب کہہ رہے تھے کہ یہ 'خودکش' حملہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ مشن کامیاب نہیں ہو گا، کیونکہ انڈین فوجیوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ تھی۔‘

بہادری کا اعتراف
بریگیڈیئر باجوہ کہتے ہیں: 'کیپٹن شیر خان بہت بہادری سے لڑے۔ آخری میں ہمارا ایک نوجوان کرپال سنگھ جو زخمی پڑا ہوا تھا، اس نے اچانک اٹھ کر 10 گز کے فاصلے سے ایک 'برسٹ' مارا اور شیر خان کو گرانے میں کامیاب رہا۔' ان کے مطابق پاکستانی حملے کے بعد 'ہم نے وہاں 30 پاکستانیوں کی لاشوں کو دفنایا۔ لیکن میں نے پورٹرز بھیج کر کیپٹن کرنل شیر خان کی لاش کو نیچے منگوایا اور ہم نے اسے بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں رکھا۔' جب کیپٹن شیر خان کی لاش واپس کی گئی تو ان کی جیب میں بریگیڈیئر باجوہ نے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا: '12 این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بےجگری سے لڑے اور انھیں ان کا حق دیا جانا چاہیے۔‘ کپیٹن کرنل شیر خان کا تعلق پاکستانی فوج کی سندھ رجمنٹ سے تھا اور کارگل کی لڑائی میں وہ ناردرن لائٹ انفنٹری سے منسلک تھے۔

نام کے کرنل، فوج کے کپتان
کیپٹن کرنل شیر خان پاکستان کے موجودہ صوبے خیبر پختونخوا کے گاؤں نواکلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا نے کشمیر میں سنہ 1948 کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ انھیں یونيفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انھوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔ تاہم اس وقت انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس نام کی وجہ سے ان کے پوتے کی زندگی میں مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ کارگل پر لکھی گئی کتاب 'وٹنس ٹو بلنڈر-کارگل سٹوری انفولڈز' کے مصنف اشفاق حسین بتاتے ہیں کہ 'کرنل' لفظ شیر خان کے نام کا حصہ تھا اور 'وہ اسے بہت فخر سے استعمال کرتے تھے۔ کئی بار اس سے کافی مشکلیں پیدا ہو جاتی تھیں۔ 'جب وہ فون اٹھا کر کہتے تھے 'لیفٹیننٹ کرنل شیر سپیکنگ' تو فون کرنے والا سمجھتا تھا کہ وہ کمانڈنگ افسر سے بات کر رہا ہے اور وہ انھیں 'سر' کہنا شروع کر دیتا تھا۔ تب شیر مسکرا کر کہتے تھے کہ وہ لیفٹیننٹ شیر ہیں۔ میں ابھی آپ کی بات کمانڈنگ افسر کے ساتھ کرواتا ہوں۔‘

مقبول افسر
کرنل شیر نے اکتوبر سنہ 1992 میں پاکستانی فوجی اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ انھیں داڑھی صاف کرنے کو کہا گیا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ ان کے آخری سیشن میں ان سے دوبارہ کہا گیا کہ آپ کی کارکردگی اچھی رہی ہے اگر آپ داڑھی صاف کر دیتے ہیں تو آپ کو اچھی پوسٹنگ مل سکتی ہے۔ لیکن انھوں نے دوبارہ انکار کر دیا۔ اس کے باوجود انھیں بٹالین کوراٹر ماسٹر کی پوزیشن دی گئی۔ پاکستانی فوجی اکیڈمی میں ان کے ایک سال جونيئر کیپٹن علی الحسین بتاتے ہیں: 'ان کی انگلش بہت اچھی تھی وہ دوسرے افسروں کے ساتھ 'سکریبل' کھیلا کرتے تھے اور اکثر جیتتے تھے۔ جوانوں کے ساتھ بھی وہ آسانی سے گھل مل جاتے تھے اور ان کے ساتھ لوڈو کھیلتے تھے۔'

حکام کے حکم پر واپس ہوئے
کیپٹ شیر خان جنوری سنہ 1998 میں ڈومیل سیکٹر میں تعینات تھے۔ سردیوں میں جب انڈین فوجی پیچھے چلے گئے تو وہ چاہتے تھے ان کے ٹھکانے پر قبضہ کر لیں۔ اس سلسلے میں وہ اعلیٰ افسران سے ابھی اجازت لینے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ کیپٹن شیر خان نے اطلاع بھیجی کہ وہ چوٹی پر پہنچ چکے ہیں۔
کرنل اشفاق حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: 'كمانڈنگ افسر تذبذب میں تھے کہ کیا کریں۔ اس نے اپنے اعلیٰ حکام تک بات پہنچائی اور اس ہندوستانی چوکی پر قبضہ جاری رکھنے کی اجازت مانگی لیکن اجازت نہیں دی گئی اور کیپٹن شیر سے واپس آنے کے لیے کہا گیا۔ ’وہ واپس آ گئے لیکن آتے آتے ہندوستانی پوسٹ کی بہت سے علامتی چیزیں مثلا انڈین فوجیوں کی وردیاں، دستی بم، وائکر گن کے ميگزن، گولیاں اور کچھ سلیپنگ بیگ اٹھا لائے۔‘

ٹائیگر ہل پر جان دی
چار جولائی سنہ 1999 کو کیپٹن شیر کو ٹائیگر ہل پر جانے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پاکستانی فوجیوں نے تین دفاعی لائنیں بنا رکھی تھی جنھیں کوڈ نمبر 129 اے، بی اور سی دیا گیا تھا۔ انڈین فوجی 129 اے اور بی دفاعی لائن کو کاٹنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ کیپٹن شیر شام کو چھ بجے وہاں پہنچے تھے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد دوسری صبح انھوں انڈین فوجیوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
کرنل اشفاق حسین لکھتے ہیں: 'رات کو انھوں نے سارے سپاہیوں کو جمع کیا اور شہادت پر ایک تقریر کی۔ صبح پانچ بجے انھوں نے نماز ادا کی اور کیپٹن عمر کے ساتھ حملے پر نکل گئے۔ وہ میجر ہاشم کے ساتھ 129 بی پر ہی تھے کہ انڈین فوجیوں نے جوابی حملہ کر دیا۔

'خطرناک صورتحال سے بچنے کے لیے میجر ہاشم اپنے توپ خانے سے اپنی پوزیشن پر ہی گولہ باری کی بات کہی۔ جب دشمن فوجی بہت قریب آتے ہیں تو فوجی ان سے بچنے کے لیے اس قسم کا مطالبہ کرتے ہیں۔' کرنل اشفاق حسین آگے لکھتے ہیں: 'ہماری اپنی توپوں کے گولے ان چاروں طرف گر رہے تھے۔ پاکستانی اور انڈین جوانوں کی دست بدست لڑائی ہو رہی تھی۔ تبھی ایک انڈین نوجوان کا برسٹ کیپٹن کرنل شیر خان کو لگی اور وہ نیچے گر گئے۔‘ باقی پاکستانی فوجیوں کو تو انڈین فوجیوں نے وہیں دفن کر دیا لیکن کیپٹن شیر خان کے جسد خاکی کو پہلے سرینگر اور پھر دہلی لے جایا گيا۔

موت کے بعد نشان حیدر
کیپٹن شیر خان کو پاکستانی فوج کے سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
بعد میں ان کے بڑے بھائی اجمل شیر نے ایک بیان میں کہا کہ 'اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا دشمن بھی کوئی بزدل دشمن نہیں ہے۔ اگر لوگ کہیں کہ انڈیا بزدل ہے تو میں کہوں گا نہیں کیونکہ اس نے اعلانيہ کہہ دیا کہ کرنل شیر ہیرو ہیں۔'

آخری الوداع
اٹھارہ جولائی سنہ 1999 کی نصف شب کو ملیر چھاؤنی کے سینکڑوں فوجی کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچ گئے تھے جنھوں نے کیپٹن کرنل شير خان کی لاش حاصل کی۔ ان کے دو بھائی اپنے آبائی گاؤں سے وہاں آئے تھے۔ کرنل اشفاق حسین لکھتے ہیں: 'صبح پانچ بج کر ایک منٹ پر طیارے نے رن وے کو چھوا۔ اس کے پچھلے حصے سے دو تابوت اتارے گئے۔ ایک میں کیپٹن شیر خاں کا جسد خاکی تھا۔ دوسرے تابوت میں رکھی لاش کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔'
ان تابوتوں کو ایمبولینس میں رکھا گیا اور اس جگہ لے جایا گیا جہاں ہزاروں فوجی اور عام شہری موجود تھے۔ 

بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے ایمبولینس سے تابوت اتار کر عوام کے سامنے رکھا جہاں خطیب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ نماز کے بعد اس تابوت کو پاکستانی فضائیہ کےطیارے پر دوبارہ رکھا گیا۔ یہ طیارہ کراچی سے اسلام آباد پہنچا جہاں ایک بار پھر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس موقع پر پاکستان کے صدر رفیق تاڑر بھی موجود تھے۔ اس کے بعد کیپٹن شیر کی لاش ان کے آبائی گاؤں لے جائی گئی جہاں ہزاروں افراد نے پاکستانی فوج کے اس بہادر فوجی کو الوداع کہا۔ ان کے اس گاؤں کا نام اب ان کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔

ریحان فضل
بشکریہ بی بی سی ہندی، دہلی


Post a Comment

0 Comments