جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ پاکستان کے لیے اس وجہ سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اسے خود تیار کرتا ہے۔ پاکستان نے چین کی مدد سے ہی ان طیاروں کو بنانے کی صلاحیت حاصل کی ہے اور ماہرین کے مطابق یہ طیارہ ایک ہمہ جہت، کم وزن، فورتھ جنریشن ملٹی رول ایئر کرافٹ ہے۔ اس طیارے کی تیاری، اپ گریڈیشن اور ’اوورہالنگ‘ کی سہولیات بھی ملک کے اندر ہی دستیاب ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس طیارے کی تیاری کے مراحل کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کا محتاج نہیں ہے۔ عسکری حکام کے مطابق یہ طیارہ دنیا بھر میں کئی اہم شوز میں بھی پذیرائی حاصل کر چکا ہے اور دنیا نے اس کی بہت اچھی اسسمینٹ کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے شو میں جے ایف 17 کے لیے دعوت نامہ ضرور آتا ہے۔
پاکستان نے جے ایف 17 پر کب کام شروع کیا ؟ یہ قصہ سنہ 1995 سے شروع ہوتا ہے جب پاکستان اور چین نے جے ایف 17 سے متعلق ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ اس طیارے کا پہلا آزمائشی ماڈل سنہ 2003 میں تیار ہوا اور پاکستانی فضائیہ نے سنہ 2010 میں جے ایف-17 تھنڈر کو پہلی مرتبہ اپنے فضائی بیڑے میں شامل کیا۔ اس منصوبے میں مِگ طیارے بنانے والی روسی کمپنی میکویان نے بھی شمولیت اختیار کر لی۔ پاکستان فضائیہ نے جے ایف-17 تھنڈر کو مدت پوری کرنے والے میراج، ایف 7 اور اے 5 طیاروں کی تبدیلی کے پروگرام کے تحت ڈیزائن کیا۔ دفاعی امور کے ماہرین کے مطابق جے ایف تھنڈر طیارہ ایف-16 فیلکن کی طرح ہلکے وزن کے ساتھ ساتھ تمام تر موسمی حالات میں زمین اور فضائی اہداف کو نشانہ بنانے والا ہمہ جہت طیارہ ہے جو دور سے ہی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل سے لیس ہے۔
جے ایف-17 تھنڈر نے اسی صلاحیت کی بدولت بی وی آر (Beyond Visual Range) میزائل سے بالاکوٹ واقعے میں انڈین فضائیہ کے مگ کو گرایا تو اس کے ساتھ ہی جے ایف-17 تھنڈر کو بھی خوب پذیرائی ملی۔ جے ایف-17 تھنڈر طیاروں میں وہ جدید ریڈار نصب ہے جو رفال کی بھی بڑی خوبی گنی جاتی ہے۔ یہ طیارا ہدف کو لاک کر کے میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی رینج 150 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے اور یہ میزائل اپنے ہدف کا بالکل ایسے ہی پیچھا کرتا ہے جیسے ہالی وڈ کی متعدد فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ جے ایف-17 تھنڈر زمین پر حریف کی نگرانی اور فضائی لڑائی کے ساتھ ساتھ زمینی حملے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ طیارہ فضا سے زمین، فضا سے فضا اور فضا سے سطحِ آب پر حملہ کرنے والے میزائل سسٹم کے علاوہ دیگر ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
انڈیا جے ایف کی برتری تسلیم کرنے کو تیار کیوں نہیں؟ پاکستان کی طرف سے مگ 21 گرانے کے واقعے کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران انڈین فضائیہ کے ایئر وائس مارشل کپور نے اس بات کا دعوٰی کیا تھا کہ پاکستان نے ایئر ٹو ایئر میزائل استعمال کیا ہے اور یہ ٹیکنالوجی صرف پاکستانی ایف-16 طیاروں میں موجود ہے۔ ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری، پاکستان کے موقف کو درست مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ جے ایف 17 ایسا طیارہ ہے جو ملکی ضروریات کے حساب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ رفال اور جے ایف 17 کے درمیان موازنے پر شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہر طیارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے، اس کی رفتار، حجم یا کسی اور پہلو سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔
ان کے مطابق ’یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کار اور ڈمپر کا موازنہ شروع کر دیں جبکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس چیز کو کس مقصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘ ان کے نزدیک اب دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ قوت اور صلاحیت کیا ہے۔ جے ایف کی خصوصیات اور تعداد سے متعلق شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ یہ تفصیلات تو کبھی نہیں بتائیں گے۔ شہزاد چوہدری کے مطابق ’ہمارے مقاصد کے اعتبار سے جے ایف 17 بہترین آپشن ہے۔ انڈیا کے طیارے تو اس وقت بھی اچھے تھے جب پاکستان نے انڈین طیارہ مار گرایا تھا۔‘ تاہم شاہد لطیف کا دعویٰ ہے کہ ’انڈیا کے طیارے اڑتی پھرتی لاشیں ہیں۔ جس کی وجہ سے انھیں رفال جیسی مہنگی ڈیل کی طرف جانا پڑا۔‘ شاہد لطیف کے مطابق تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہ سب کچھ تو جے ایف 17 میں بھی ہے جو رفال میں بتائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر رفال میں فورتھ جنریشن ہے تو جے ایف 17 میں فورتھ اینڈ ہاف جنریشن تک صلاحیت ہے۔
جے ایف 17 کہاں تیار کیے جا رہے ہیں؟ سابق ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف نے بی بی سی کو بتایا کہ جے ایف 17 طیاروں کی خاص بات ہی یہ ہے کہ یہ باہر کے ممالک سے نہیں بلکہ پاکستان کے اندر کامرہ کے مقام پر تیار کیے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب انڈیا کو مشکل صورتحال میں فرانس کی طرف دیکھنا ہو گا۔ ان کے مطابق پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ جب مرضی اور جتنے مرضی طیارے بنائے۔ شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ سو سے زائد جے ایف 17 تیار کر کے فضائیہ کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ایئر کموڈور قیصر طفیل نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ دسمبر 2018 میں پاکستان نے 112 جے ایف طیارے تیار کر لیے تھے جبکہ مزید 76 پر کام جاری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ایک سال میں 24 جے ایف 17 طیارے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ انڈیا کو رفال ملنے میں کئی سال لگ جائیں گے کیونکہ یہ سب اتنی جلدی نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق ’اگر کوئی خرابی واقع ہوتی ہے تو پھر انڈیا کو ہر بار فرانس کا رخ کرنا ہو گا۔‘ شاہد لطیف کے مطابق سب سے زیادہ اہمیت ’اسسمینٹ‘ کی ہوتی ہے طیارے کی نہیں۔ ان کے مطابق رفال بھی فورتھ جنریشن طیارہ ہے جس طرح ایس یو-30 تھا جس کو پاکستانی پائلٹس نے گرایا تھا۔ جے ایف-17 کی ڈیزائن لائف چار ہزار گھنٹے یا 25 سال بتائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طیارے میں نصب ریڈار نظام کی بدولت جے ایف-17 تھنڈر بیک وقت 15 اہداف کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ چار اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
0 Comments