Pakistan

6/recent/ticker-posts

رافائل کا جے ٹوئنٹی سے کوئی مقابلہ نہيں، چين

رافال طياروں کی حوالگی پر چين نے اپنا رد عمل ظاہر کيا اور چين کے گلوبل ٹائمز نامی نشرياتی ادارے نے مختلف عسکری ماہرين کے حوالے سے لکھا ہے کہ رافال کا چینی طیارے جے ٹوئنٹی سے کوئی مقابلہ نہيں۔ چينی ماہرين کے مطابق رافال 'تھرڈ پلس جنريشن‘ کا لڑاکا طيارہ ہے جبکہ جے ٹوئنٹی چوتھی جنريشن کا طيارہ ہے۔ چينی تجزيہ کاروں کے مطابق رافال يقيناً اس وقت بھارتی فليٹ ميں شامل Su-30MKI سے بہتر ہے مگر يہ کوئی بہت بڑی يا واضح سبقت نہيں۔  فوربز ميگزين پر شائع ہونے والی ايک رپورٹ کے مطابق چين نے بھارت کے ساتھ کشيدگی کے تناظر ميں لداخ کے قريب ہوٹان ايئر بيس پر چوبيس جے گيارہ اور جے سولہ طيارے تعينات کر رکھے ہيں۔ سولہ ٹن وزنی جے گيارہ سرد جنگ کے دور کے روسی ساختہ 'سو ستائيس‘ سے مشابہت رکھتا ہے جبکہ بيس ٹن وزنی جے ٹوئنٹی Su-30MKI سے کافی بڑے ہيں۔ 

يہ دونوں حجم کے اعتبار سے رافال سے زيادہ بڑے اور بھاری ہيں جبکہ ان دونوں کی رينج بھی رافال سے زيادہ ہے۔ دوسری جانب بھارتی ماہرين چينی دعووں پر سوال اٹھا رہے ہيں۔ ہندوستان ٹائمز ميں چھپنے والے سابق ايئر چيف مارشل بی ايس دھنوا کے بيان ميں وہ رافال کو ساڑھے چار جنريشن کا لڑاکا طيارہ قرار ديتے ہيں۔ وہ سوال اٹھاتے ہيں، ''مائٹی ڈريگن کہلانے والا جے ٹوئنٹی سپر کروز کی صلاحيت کيوں نہيں رکھتا؟‘‘ انہوں نے چند اور آلات کی نشاندہی کی جو جے ٹوئنٹی ميں لگے ہوئے ہيں۔ دھنوا کے مطابق رافال 'گيم چينجر‘ ہے اور ہر صورت ميں اسے چينی جديد ترين جے ٹوئنٹی پر برتری حاصل ہے۔ فوربز ميگزين پر ايک اور بھارتی دفاعی تجزيہ کار کے مطابق چينی ساختہ جے ٹوئنٹی حد سے حد بھی ساڑھے تين جنريشن کا لڑاکا طيارہ ہے۔

کس کے لڑاکا طيارے بہتر ہيں؟
فوربز ميگزين ميں چھپنے والے آرٹيکل کے مطابق اس سوال کا جواب مشکل ہے اور شايد يہ بے معنی بھی ثابت ہو۔ حقيقت يہ ہے کہ دونوں ممالک کے لڑاکا طيارے بہت با صلاحيت ہيں اور دونوں ہی ملک ايٹمی طاقت کے حامل بھی ہيں۔ يہ وجہ ہے کہ اگر کوئی ممکنہ تصادم ہو بھی گيا، تو وہ چھوٹے پيمانے پر ہو گا اور انتہائی کنٹرولڈ ہو گا تاکہ معاملات ہاتھ سے نہ نکليں۔ ايسی صورتحال ميں طيارے کی فضا ميں صلاحيت سے زيادہ اہم پائلٹس کی تربيت، زمين پر موجود رڈار سسٹمز کی اہليت، طيارہ شکن ميزائل دفاعی نظام کی موجودگی يا عدم موجودگی سميت کمانڈ اينڈ کنٹرول نيٹ ورک پر زيادہ انحصار ہو گا۔ امريکا ميں قائم نيشنل انٹسٹيٹيوٹ آف ايشين اسٹڈيز سے وابستہ آرزان تاراپورے کے مطابق بھارت کی جانب سے لداخ ميں پانچ رافال طياروں کی تعيناتی زيادہ علامتی ہے نہ کہ اس کا مقصد جنگی مشنوں ميں استعمال ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
 

Post a Comment

0 Comments