Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیپٹن محمد سرور شہید : پاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا نشانِ حیدر حاصل کرنیوالے

لہو سے سرزمین وطن کی آبیاری کرتے ہوئے، ازلی دشمن بھارت کی فوج پراپنی شجاعت و بہادری کی دھاک بٹھا کر شہید ہو نے والے اور پاکستان کا پہلا اور سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر پانے والے پاک فوج کے جانباز ہیرو کیپٹن محمد سرور شہید کا یوم شہادت ستائیس جولائی کو منایا جاتا ہے۔ کیپٹن محمد سرور شہید 10 نومبر 1910ء کو راولپنڈی کے علاقہ گوجر خان کے ایک گاؤں سنگھوڑی کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد جناب محمد حیات خان بھی فوج میں حوالدار تھے۔ کیپٹن محمد سرور شہید کا تقریباً سارا گھرانہ مذہبی اور دین دار تھا، اس لئے جب وہ اپنے شعور کو پہنچے تو ان کے والد نے انہیں ابتدائی دینی تعلیم کے لئے گاؤں کی مسجد میں داخل کروا دیا جہاں رہ کر کچھ عرصہ میں انہوں نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ 

پھر جب وہ 6 برس کے ہوئے تو ان کے والد نے انہیں ضلع لائل پور فیصل آباد کے گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول طارق آباد میں داخل کروایا، جہاں رہ کر انہوں نے پرائمری امتیازی نمبروں سے پاس کی اور پھر 1925 ء میں تاندلیہ نوالہ مڈل سکول سے مڈل پاس کیا اور 1927 ء میں دسویں جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کی، اس وقت ان کی عمر 17 برس تھی۔ پھر 1929 ء میں بلوچ رجمنٹ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہو گئے اور اپنا پہلا فوجی کورس مکمل کرنے اولڈ بلوچ سنٹر کراچی روانہ ہو گئے۔ جہاں وہ 2 سال تک مغربی سرحدی صوبے میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1941 ء میں حوالدار بن گئے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈرائیونگ کا کورس کا بھی مکمل کر لیا ۔ 1942ء میں ہنگامی کمیشن کے لئے ان کا چناؤ کیا گیا۔ 

ٹریننگ کورس کے بعد ’’انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون‘‘ سے مورخہ 19 مارچ 1944 ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ ہو کر نکلے، اور مورخہ 27 اپریل 1944 ء کو لیفٹیننٹ بنا دیئے گئے۔ 1945ء میں جب دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو 1946 ء تک کیپٹن سرور شہید پنجاب رجمنٹ میں متعین رہے اور پھر 1946 ء میں ان کو پنجاب رجمنٹ سیکنڈ میں بھیج دیا گیا۔ اور اس کے بعد شاندار فوجی خدمات کے پیش نظر 1946ء میں انہیں مستقل طور پر کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی، اور 1947 ء میں قیام پاکستان کے بعد کیپٹن محمد سرور شہید نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1948ء میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کے سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات سر انجام دے رہے تھے انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔ 27 جولائی 1948 ء میں انہوں نے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن محمد سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔

جب وہ دشمن سے صرف 30 گز کے فاصلے پر پہنچے تو دشمن نے ان پر بھاری مشین گن دستی بم اور مارٹر گنوں سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی۔ جوں جوں مجاہدین کی تعداد میں کمی آتی گئی ان کا جوش و جذبہ بڑھتا چلا گیا۔ پھر کیپٹن محمد سرور نے ایک توپچی کی گن کو خود سنبھالا اور دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اب دشمن کا مورچہ صرف 20 گز کے فاصلے پر تھا۔ اس موقع پر اچانک انکشاف ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کر لیا ہے۔ کیپٹن سرور اس غیر متوقع صورت حال سے بالکل ہراساں نہ ہوئے اور برابر دشمن پر فائرنگ کرتے رہے۔ اس دوران میں اپنے ہاتھ سے دستی بم ایسا ٹھیک نشانے پر پھینکا کہ دشمن کی ایک میڈیم مشین گن کے پرخچے اڑ گئے مگر اس حملے میں ان کا دایاں بازو شدید زخمی ہو گیا مگر وہ مسلسل حملے کرتے رہے۔

انہوں نے ایک ایسی برین گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا چنانچہ اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر چھ ساتھیوں کی مدد سے خاردار تاروں کو عبور کر کے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کیا، کیپٹن محمد سرور گولیوں کی بارش برساتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے۔ دشمن نے اس اچانک حملے کے بعد اپنی توپوں کارخ کیپٹن سرور کی جانب کر دیا۔ یوں ایک گولی کیپٹن سرور کے سینے میں لگی، اس طرح یہ بہادر سپاہی27 جولائی 1948ء کو آزاد کشمیر کے محاذ پر مادر وطن کی حفاظت اور غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ مجاہدین نے جب انہیں شہید ہوتے دیکھا تو انہوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور گئے۔

یہ بھی ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ کیپٹن محمد سرور شہید جس دن پیدا ہوئے تھے وہ عید کا دن تھا اورجس دن انہوں نے جام شہادت نوش کیا وہ عید کا دوسرا دن تھا۔ ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں جہاں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا، وہیں جب 1956ء میں جب پاکستان میں باقاعدہ عسکری اور شہری اعزازات کا آغاز ہوا تو 27 اکتوبر 1959ء کو انہیں حکومت پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر سے نوازنے کا فیصلہ کیا گیا، انہیں پہلا نشان حیدر پانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ اعزاز ان کی بیوہ محترمہ کرم جان نے 3 جنوری 1961ء کو صدر پاکستان محمد ایوب خان کے ہاتھوں وصول کیا۔ لازوال شجاعت و بہادری کی داستان رقم کرنے والے کیپٹن محمد سرور شہید کے یوم شہادت کے موقع پر پوری پاکستانی قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے ۔

رانا اعجاز حسین چوہان

بشکریہ روزنامہ جسارت

Post a Comment

0 Comments