Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاک و ترک فوج کا موازنہ‎

پاکستان اور ترکیہ عالمِ اسلام کے دو ایسے ممالک ہیں جن کی افواج پر پورے عالمِ اسلام کی نگاہیں مرکوز ہیں اور تمام اسلامی ممالک اپنے اپنے ملک کی افواج اور سیکورٹی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ان ہی دو ممالک سے رجوع کرتے ہیں، قطر میں ورلڈ فٹبال کپ میں انہی دونوں ممالک کے فوجی دستے سیکورٹی کے فرائض ادا کریں گے۔ دونوں ممالک کی افواج میں بعض معاملات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ترکیہ میں اتحادی ممالک کے خلاف فتوحات کے چیف آف جنرل اسٹاف اور فیلڈ مارشل کی حیثیت سے مصطفی کمال اتاترک نے پہلے قومی اسمبلی حکومت کے سربراہ کے طور پر اور پھر چار بار صدر مملکت منتخب ہو کر ملکی نظم و نسق میں فوج کے کردار کی بنیاد رکھ دی جبکہ پاکستان کے قیام کی کہانی ترکیہ سے بالکل مختلف ہے۔ قیام پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں سیاستدانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا اور یہ جنگ اپنی سیاسی قوتِ بازو سے جیتی لیکن پاکستان کے قیام کے گیارہ سال بعد جنرل ایوب نے 1958ء میں ملک میں سیاستدانوں کو اقتدار سے ہٹاتے ہوئے مارشل لا نافذ کر دیا اور ملکی نظم و نسق میں فوج کو شامل کرنے کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے آئینی تحفظ بھی فراہم کر دیا۔

ترکیہ میں اتاترک کے بعد جنرل عصمت انونو کی قیادت میں فوج طویل عرصے تک ملک کے سیاہ وسفید کی مالک رہی اور پاکستان کی طرح ترکیہ میں بھی وقفے وقفے سے مارشل لا لگتا رہا۔ 27 مئی 1960ء کوچیف آف جنرل اسٹاف، جنرل جمال گرسل نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے آئین میں تبدیلیاں کیں اور فوج کو ملکی نظم و نسق میں شامل کرتے ہوئے اعلیٰ ملی دفاعی کونسل (جسے بعد میں نیشنل سیکورٹی کونسل کا نام دے دیا گیا) قائم کر دی۔ ترک فوج نے ملک میں مارشل لا ہو یا نہ ہو ہمیشہ ملکی نظم و نسق پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور ملکی انتخابات اور خاص طور پر پارلیمنٹ کو ہمیشہ ہی اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا، ملک کے ابتر سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جنرل کنعان ایورن نے 12 ستمبر 1980ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور پھر پاکستان کے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی طرز کا ریفرنڈم کروا کے سات سال کیلئے خود کو صدرمنتخب کروانے کے ساتھ ساتھ ملک کا نیا آئین بھی منظور کروا لیا جس پر آج بھی مختلف ترامیم کے ساتھ عمل درآمد جاری ہے۔

صدر کنعان ایورن کے بعد ملک ایک بار پھر اتحادی حکومتوں کی وجہ سے سیاسی اور اقتصادی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا جبکہ 3 نومبر 2002 کو ہونے والے عام انتخابات میں رجب طیب ایردوان کی قیادت میں قائم جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اس اتحاد سے نجات حاصل کر لی اور ملک کو اقتصادی لحاظ سے دنیا کے پہلے سولہ ممالک کی فہرست میں شامل کرانے میں کامیابی حاصل کی لیکن ترک فوج نے ان کی حکومت کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور ملک کے کسی بھی ادارے میں نئی حکومت کو اپنے پسند کے بیوروکریٹس متعین کرنے کی اجازت ہی نہ دی۔ ایردوان کی قیادت میں سول حکومت کے مضبوط ہونے اور عالمی سطح پر اس کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ سے فوج نے ایک بار پھر ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی 15 جولائی 2016 کو ناکام کوشش کی جس پر ایردوان حکومت نے آئین میں ترامیم کراتے ہوئے تختہ الٹنے والوں پر سول عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی راہ ہموار کروالی اور اس طرح استنبول کی سول عدالت میں ترکی کی تاریخ میں پہلی بار فرسٹ آرمی کے کمانڈر انچیف، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہ اور چیف آف جنرل اسٹاف سمیت اعلیٰ 365 فوجی افسران پر بغاوت کے الزام میں مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا اور طویل مقدمے کی کارروائی کے بعد 325 افسران کو سزا سنائی گئی۔

یہ ایردوان حکومت کی ایک ایسی کامیابی ہے جس نے مستقبل میں فوج کے سول حکومت کے انتظامی معاملات میں مداخلت کے تمام دروازے بند کر دیئے۔ ایردوان حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ فوج کو وزارتِ دفاع اور وزیر دفاع کی جانب سے دئیے جانے والے احکامات کی تعمیل کروانا ہے۔ اس سے قبل ترکیہ میں وزیر دفاع کا کردار صرف کاغذوں تک ہی محدود تھا اور چیف آف جنرل اسٹاف (ترکیہ میں چیف آف آرمی اسٹاف نہیں) ہی ملک کے کرتا دھرتا تھے۔ ان کے بیانات اور احکامات کو میڈیا ہمیشہ اولیت دیتا۔ فوج جب چاہتی اخبارات اور میڈیا کی خبروں کو سنسر کر دیتی اور کسی کو بھی چون و چرا کی ہمت نہ ہوتی لیکن 15 جولائی کی ناکام فوجی بغاوت نے ملک میں سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا اور اب فوج عملی طور پر بیرکوں میں واپس جا چکی ہے اور ملکی سیاست میں کسی قسم کی دخل اندازی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ فوج کی تکریم، عزت و احترام میں کوئی کمی آئی ہے بلکہ اس کے برعکس فوج کی تکریم اور عزت و احترام میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ یہ فوج اب سیاست میں نہیں بلکہ ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور دفاعی صنعتی پیداوار کی جانب بھر پور توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ 

پہلی بار ملک میں دفاعی ضروریات کا اسی فیصد ترکیہ ہی میں مقامی وسائل سے تیار کیا جا رہا ہے اور مقامی ڈرونز نے ترکیہ کو امریکہ اور چین جیسے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ ترکیہ کی فوج کی تکریم اور احترام میں اضافے کا اندازہ آپ ترکیہ میں کسی بھی شہید فوجی کے جنازے سے لگا سکتے ہیں جس میں حکومت، عوام اور فوج کے اعلیٰ حکام بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور فوجی شہید کی خبر کو تمام میڈیا نمایاں طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستانی افواج بھی پاکستان کے عوام کے دلوں میں بستی ہے اوراسے پردے کے پیچھے ہی رہ کر ملکی دفاع کی طرف توجہ دینا ہے ورنہ پاکستانی سیاستدان بلا کسی ثبوت اور شواہد کے فوج کو نشانہ بناتے رہیں گے۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments