Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، پاکستان کی حفاظت کی ضامن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں نہایت سخت لہجہ اپنایا، مگر انہوں نے اب تک پابندیاں نہیں عائد کی ہیں، جیسا کہ ایران کے ساتھ ہوا، نہ ہی انہوں نے پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح 'مکمل طور پر تباہ' کر دینے کی دھمکی دی۔ پاکستانی سفارتکاروں کا ماننا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ گرمجوش تعلقات نہ سہی مگر پھر بھی کام کی حد تک تعلقات کی گنجائش موجود ہے۔ مگر یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسلام آباد افغانستان سے متعلق امریکا کی 'نئی' پالیسی سے متفق نہیں ہے۔ یہ افغانستان کی جنگ اپنی زمین پر نہیں لڑے گا۔ یہ افغانستان میں ہندوستان کے وسیع کردار کی مخالفت کرتا رہے گا۔ اسلام آباد افغان طالبان اور کابل کے درمیان طویل تنازعے کے بجائے تنازعے کا سیاسی حل چاہتا ہے.

اگر پاکستان اور امریکا افغانستان پر اپنے حد درجہ مختلف مؤقف کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے، تب بھی ان اسٹریٹجک شراکت داریوں میں تبدیلی ہوتی نظر آتی جو کہ ایشیاء میں پالیسیوں کا تعین کریں گی۔ امریکا نے ایشیاء میں چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے کے لیے ہندوستان کو اپنا اسٹریٹجک شراکت دار منتخب کر لیا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی سلامتی کے لیے ہندوستان کی جانب سے کیا خطرات پیدا ہوتے ہیں، اِس سے امریکا کو یا تو کوئی فرق نہیں پڑتا، یا پھر خطے میں ہند امریکی بالادستی کے خلاف پاکستان کی مزاحمت کو کمزور کرنا اِس کی پالیسی کا حصہ ہے۔

امریکی سیکریٹری دفاع کے حالیہ دورہءِ ہندوستان نے اِس اسٹریٹجک اتحاد کی تصدیق کرتے ہوئے افغانستان میں اُن کے تعاون پر مہر ثبت کر دی ہے۔ ہندوستانی ڈکٹیشن کی مزاحمت اور امریکا کی اسٹریٹجک پالیسیوں کی مخالفت کرنے کی قابلیت پاکستان میں ایک اہم وجہ سے موجود ہے۔ وہ اہم وجہ پاکستان کی ایٹمی اور میزائل صلاحیت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان پر یا عراق کی طرح حملہ کر دیا جاتا یا پھر ایران کی طرح پابندیاں لگا دی جاتیں۔ دوسری جانب شمالی کوریا اپنی تنہائی کے باجود امریکا کو نیچا دکھانے میں اِس لیے کامیاب ہے کیوں کہ وہ ایک ایٹمی قوت اور میزائل ٹیکنالوجی کی ماہر قوم ہے۔

ایک اسلامی ایٹمی قوت امریکا اور زیادہ تر مغربی ممالک کے لیے ہمیشہ سے گلے کی ہڈی کی طرح تھی۔ یہاں تک کہ جب پاکستان امریکا کا قریبی اتحادی تھا، تب بھی امریکا کی پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح اِس کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو بتدریج کم کرتے ہوئے ختم ہی کر دیا جائے۔ امریکا کے ہندوستان کے ساتھ اتحاد کے بعد اِن کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ پاکستان کے اسٹریٹجک پروگرامز کے خلاف تفریق پر مبنی ٹیکنولوجیکل اور سیاسی پابندیوں کے علاوہ امریکا اب مطالبہ کر رہا ہے کہ پاکستان اکیلے ہی ایٹمی مواد اور تھوڑے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایٹمی میزائلوں کی تیاری بند کر دے۔

مگر اِس کے ساتھ ہی یہ ہندوستان کی اِس کے ایٹمی اسلحے میں اضافے اور جدت لانے، اِس کی میزائل اور اینٹی بیلسٹک میزائل صلاحیتوں میں اضافے، اور اِس کی فضائی و بحری افواج اور سیٹلائٹ اور خلائی پروگرام میں ترقی کے لیے بھرپور مدد کر رہا ہے۔ باوثوق رپورٹس جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، موجود ہیں کہ امریکا نے کسی تنازعے یا بحران کے دوران پاکستان کے ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرنے یا اِسے برباد کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے دہشتگردوں کے ہاتھ لگ جانے، یا اِس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز طور پر پاک فوج کے 'انتہاپسند' فوج میں تبدیل ہو جانے کے خیالی پلاؤ بنا رکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کی خوفناک صورتحال پیدا کی جا سکتی ہے تاکہ 'قبضہ کرو اور تباہ کرو' کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

اگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک اور جنگ ہو گئی، تو حالات میں مزید خرابی آئے گی۔ کشمیر دونوں ممالک کے بیچ ایک جاری تنازع ہے جو ایٹمی جنگ کو ہوا دے سکتا ہے۔ چوںکہ دونوں ممالک کی فوجی قوت میں عدم توازن موجود ہے، اِس لیے پاک و ہند جنگ کے فوری طور پر ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ اِس لیے جنگ کا تو سوچا بھی نہیں جانا چاہیے۔ مگر پھر بھی ہندوستان کے سیاسی اور عسکری قائدین پاکستان کے خلاف 'سرجیکل اسٹرائیکس' اور 'محدود' جنگ کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہندوستان نے کبھی پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کا فیصلہ بھی کیا تو اُسے پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ختم کرنے کے لیے حملہ کرنا ہو گا، یا پھر ہندوستان کے لیے یہ کام امریکا سرانجام دے گا ؟ پاکستان کو دونوں ہی طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اسلام آباد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ماضی میں اپنے ایٹمی اثاثوں کی 'سلامتی و تحفظ' کے لیے امریکا سے 'تعاون' کی وجہ سے امریکا کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اچھی خاصی انٹیلیجنس حاصل ہے۔ مگر پاکستانی حکام امریکا کی پاکستان کے اثاثوں پر قبضہ کرنے کی صلاحیت کو درست طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کئی ہتھیار، کئی جگہوں پر پھیلے ہوئے اور اچھی طرح محفوظ ہیں، اِس لیے اِن پر قبضہ، یا اِن پر حملہ کر کے اِنہیں برباد نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ایٹمی ہتھیار ڈیلیور کرنے والے سسٹم (میزائل وغیرہ) کو چھپانا یا محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

کسی بھی تنازعے کی صورت میں ابتدائی حملے کا شکار یہ ڈیلیوری سسٹم ہی بنیادی ہدف ہوں گے۔ کسی بھی تنازعے کی صورت میں جب انہیں الگ رکھے گئے وار ہیڈز سے ملایا جا رہا ہو گا، تو اُن کی جگہوں کا پتہ لگانا آسان ہو جائے گا۔ اِس کے علاوہ، جیسا کہ حال ہی میں کوریا میں دیکھا گیا، میزائل لانچ کو سائبر حملوں اور دیگر تکنیکی ذرائع سے سبوتاژ کیا جا سکتا ہے۔ اِس اسٹریٹجک صورتحال میں پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہی بیرونی خطرات اور دباؤ کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی قوت ہیں۔ پاکستان کو اپنی ایٹمی صلاحیت کو قابلِ اعتبار بنائے رکھنے کے لیے کئی اقدامات کرنے چاہیے۔ پہلا، شمالی کوریا کی طرح آرٹلری اور تھوڑے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ہندوستان کے کولڈ اسٹارٹ حملے کے خلاف مزاحمت کی پہلی صف کے طور پر تنصیب۔ اِس سے ہندوستانی حملہ ناکام ہو جائے گا اور ایٹمی حملے کی نوبت اوپر چلی جائے گی۔

دوسرا، پاکستان کو ایٹمی حملوں کی صلاحیت رکھنے والے طویل، درمیانے اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تعداد بڑھانی ہو گی تاکہ ہندوستان کے کسی بھی بیلسٹک میزائل سسٹم کا توڑ کیا جا سکے۔ تیسرا، پاکستان کو اپنے میزائلوں پر ایٹمی وار ہیڈز کی تنصیب کے لیے لگاتار ایٹمی مواد تیار کرتے رہنا ہو گا۔ چوتھا، جوابی حملے کے لیے کم از کم کچھ میزائل ایٹمی وارہیڈز سے لیس کر کے اُنہیں پوشیدہ رکھ کر تیار رکھنا ضروری ہے۔ اِس کے علاوہ آبدوزوں پر نصب بیلسٹک میزائل پاکستان کو دوسرا حملہ کرنے کی صلاحیت فراہم کر سکتے ہیں۔ پانچواں، مؤثر فضائی دفاعی نظام اور محدود اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹمز کی تنصیب ضروری ہے تاکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو محفوظ بنایا جا سکے۔

چھٹا، سائبر جنگ کے لیے حملے اور دفاع، دونوں کی صلاحیت پیدا کی جانی چاہیے۔ اِس سب کے علاوہ، پاکستان کو جلد سے جلد خبردار کرنے والے سسٹمز، جن میں سیٹلائٹس، طیارے اور ڈرونز شامل ہیں، حاصل کرنے چاہیے۔ اِس دوران پاکستان کو چین کے ایسے سسٹمز سے مدد لینی چاہیے۔ آخر میں یہ کہ چین کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ساتھ اسٹریٹجک اور روایتی مزاحمت کی صلاحیت بڑھانی چاہیے تاکہ کم وقت اور کم خرچ میں فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
ایک بار پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کے مکمل طور پر قابلِ اعتبار ہونے کو واضح کر دے گا، تو جنوبی ایشیاء میں قیامِ امن اور مسئلہ کشمیر کے حل کی اس کی کوششوں پر ہندوستان اور امریکا، دونوں ہی کی جانب سے مثبت ردِ عمل کی توقع ہے۔ اِس کے بعد پاکستان اپنے سماجی و اقتصادی مقاصد کو بیرونی جارحیت، مداخلت اور دباؤ کے خوف کے بغیر حاصل کر سکے گا۔

منیر اکرم

لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔
 

Post a Comment

0 Comments